1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عورت کا معاشی استحصال

24 مئی 2021

ہمارے معاشرے کا ایک بھیانک پہلو یہ بھی ہے کہ جب ایک عورت معاشی جدوجہد کے لیے نکلتی ہے تو اسے صرف معاشرے یا باہر کے لوگوں کے ہی برے رویوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔بلکہ اس کے اپنے بھی اس کی زندگی کو تلخ اور مشکل بناتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3tqjF
تصویر: Privat

علی الصبح بجنے والی فون کال نے ہمیں متوجہ کیا۔ دوسری جانب ہماری ایک کولیگ انتہائی جھلائے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھیں کہ آج کے لیے میری غیر حاضری کی درخواست دے دینا۔ بعد میں میں اپنا استعفی بھیج دوں گی۔ بعد کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں کہ نوکری مستقل ہونے کے بعد جب بینک میں اکاؤنٹ کھولا گیا تو شوہر سے اس بات پر تنازعہ شروع ہو گیا کہ اے ٹی ایم کارڈ میرے حوالے کر دیں۔ یعنی شوہر نامدار ان کی پوری تنخواہ ہتھیا لینا چاہتے ہیں جو کہ پہلے سے ہی بیوی کے نان نفقہ کے ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تھے۔

بات یہاں تک بگڑی کہ انہیں رات گئے گھر سے نکلنے کا حکم نامہ سنا دیا گیا اور اب وہ چونکہ والدہ کے گھر پر ہیں تو وہاں سے آج نوکری پر آنا ممکن نہ ہو گا۔ تین عدد بچوں کی پیدائش اور ان کی پرورش کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ نوکری کی ذمہ داری کو نبھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس جبری مشقت کی چکی میں پسنے کے بعد وہ یہ حق بھی نہ رکھتی ہو کہ اپنے کمائے ہوئے چار پیسے بچوں کی فیسوں یا دیگر ضروریات کے لیے استعمال کر سکے تو پھر اس ساری مشقت کا نتیجہ صفر ہی رہتا ہے۔

یقینا ہر خاتون کے لیے ایک ہی جیسے حالات اور واقعات نہیں ہوتے۔ ان میں سے وہ بھی ہیں جو اپنے خاندان کی طرف سے ہر طرح کی حمایت اور ہمدردی پاتی ہیں لیکن ان کی تعداد شاید آٹے میں نمک کے برابر ہو۔ عورت اگر کماتی ہے تو اپنی کمائی اپنے ساتھ قبر میں لے کر نہیں اترتی۔ شروع دن سے ہی وہ گھر پر خرچ کرتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود صبح سویرے بن ٹھن کر گھر کی ذمہ داریوں سے فرار کا طعنہ سنتی ہیں۔ اکثر مرد حضرات بیوی کو خود کفیل دیکھ کر اپنی ذمہ داریاں سہولت سے اس کے کاندھوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد ایسی بےشمار خواتین کو دیکھتے ہیں جو صبح کی چکی پیس کر گھر سے نکلتی ہیں۔ سارا دن نوکری کے بعد شام میں گھر داری کرنا اور اس کے بعد رشتہ داریاں نبھانا بھی ان ہی کے ذمہ ہے۔ ان ساری ذمہ داریوں کے باوجود نوکری کی آزادی اور عیاشی کا طعنہ دینے والے کوئی اور نہیں، اپنے ہی خاندان کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن مرے پر سو درے کے مترادف اگر شوہر بھی استحصال پر اتر آئے تو پھر کوئی جائے پناہ نہیں بچتی۔ جاب چھوڑنے کی صورت میں میکے اور سسرال میں بے آسرا ہونے کا خوف انہیں یہ بیگار جھیلنے پر مجبور رکھتا ہے۔

گئے وقتوں میں مردوں کے لیے یہ بات ایک تازیانہ ہوتا تھا کہ بیوی کی کمائی پر ہاتھ صاف کیے جائیں۔ لیکن اب ایسے مردوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں بڑھتی نظر آتی ہے جو کہ بیویوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ معاشی جدوجہد میں برابر کا ساتھ دیں۔ لیکن خود گھر کی ذمہ داریاں بیوی کے ساتھ برابری کی حیثیت سے بانٹنے پر رضامند نظر نہیں ہوتے۔ مردوں کی ایسی توقعات ہمارے خاندانی نظام کی موت ثابت ہوسکتی ہے۔

یہاں یہ بحث ہرگز مقصود نہیں کہ خواتین کو نوکری کرنا چاہیے یا نہیں؟ بلکہ فی زمانہ اس بات کا تعین ضروری ہے کہ بدلتے ہوئے زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں میں شوہر اور بیوی کا کردار کیا ہونا چاہیے؟ اگر بیوی کے لیے بہتر مواقع میسر ہیں تو اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ اسے نا صرف شوہر بلکہ خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے بھی حمایت اور توجہ کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ نوکری اور گھر کی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم رکھ سکے۔

عالمی بینک کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق افرادی قوت میں خواتین کی شرکت تیس فیصد سے کم ہے۔ لیکن بین الاقوامی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان، بھارت اور مصر میں یہ تعداد آدھی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت اور سری لنکا جیسے ممالک میں افرادی قوت میں خواتین کا حصہ کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان اور اسپین میں اس تعداد میں سالانہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ہمارے پاس اکانومی کا ایک بہت بڑا حصہ کسی دستاویزی شکل میں موجود ہی نہیں۔ اس میں یقیناً وہ خواتین شامل نہیں ہیں جو کہ گھروں میں بیٹھ کر کام کرتی ہیں یا دوسروں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہیں۔ لہذا درست اعداد و شمار کا تعین کیا ہی نہیں جا سکتا۔

معاشی جدوجہد کی دوڑ میں شامل خواتین کی تعداد میں اضافے کے باوجود رویوں کی تبدیلی میں ابھی بہت وقت درکار ہے۔ معاشرتی رویے ان کی راہ ہموار کرنے کے بجائے ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع اور بیرون ملک سکالرشپ کے معاملے میں بھی خواتین کے لیے دستیاب وسائل ناکافی ہیں۔ لیکن ان تمام چیلنجز سے نمٹتے ہوئے جب ایک خاتون اپنا کیریئر بناتی ہے تو بھی اس کی مشکلات میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ ایک ہی جیسی ذمہ داریاں اور ایک ہی جیسی کارکردگی دکھانے کے باوجود مردوں اور خواتین کی اجرتوں میں واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی کارکردگی کو متاثر کرنے کے لیے جنسی ہراسانی کا ہتھیار تک استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔

دفتری اوقات تو عموماً نو سے پانچ بجے تک ہوتے ہیں لیکن خواتین کے لیے یہ اوقات صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک ہو جاتے ہیں۔ صبح سویرے تمام گھر والوں کے لیے ناشتہ تیار کرنا ہے۔ بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اور شوہر کو دفتر جانے کی تیاری میں مدد اور ساتھ ہی اپنے دفتر جانے کی تیاری بھی کرنی ہے۔ نوکری کے معاملات تو شاید کسی گنتی میں ہی نہیں آتے۔ کیوں کہ واپسی پر ساس نندوں کی طرف سے یہ طعنہ بھی ملتا ہے کہ آپ تو صبح سے نکلی ہوئی تھیں اب ذرا گھر بھی دیکھ لیجئے۔ رات کے کھانے کی تیاری اور ساتھ ہی بچوں کے تعلیمی معاملات کو دیکھنا بھی والدہ کی ذمہ داری ہی ٹھہرتی ہے۔ اس تمام چومکھی کو لڑنے کے باوجود افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج والدین خود اس بات کی خواہش کرتے ہیں کہ بیٹے کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی بھی نوکری پیشہ ہو۔

میں نے ایک والدہ کو اپنی بیٹی کے لیے نوکری کی تلاش میں فکرمند دیکھ کر پوچھا کہ آپ اپنی بیٹی سے نوکری کیوں کروانا چاہتی ہیں؟ تو جواب ملا کہ پچھلے چند مہینوں میں جو بھی رشتے آئے انہوں نے پہلا سوال یہی کیا کہ لڑکی کوئی نوکری کرتی ہے؟ اور پھر تبصرہ کیا کہ بھئی آج کل تو مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ دونوں میاں بیوی مل جل کر ہی اپنے معاشی مسائل حل کر پاتے ہیں۔ لہذا میرے خیال میں بیٹی کا رشتہ اچھی جگہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی اچھی نوکری کرتی ہو۔ اسی طرح ایک اور جاننے والی خاتون جو کہ عمر زیادہ ہو جانے کی وجہ سے کسی رشتے کی توقع بھی کھو بیٹھی تھیں۔ اچانک ایک اچھی نوکری ملنے کے بعد ان کی شادی بھی فٹا فٹ ہو گئی۔ یعنی آج کے معاشرے میں خواتین سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ معاشی جدوجہد میں برابر کا ساتھ دیں۔ بہت سے لوگ شاید اس حقیقت کو ماننے میں تامل کریں لیکن اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو آپ کو ایسے بہت سے کردار نظر آ جائیں گے۔ خواتین کا معیشت میں حصہ لینا کوئی معیوب بات نہیں۔ لیکن پھر اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں برابر کے مواقع ملنے چاہییں۔

کچھ عرصہ قبل آئی ایم ایف کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کے جی ڈی پی کو 30 فیصد تک بڑھانے کے لیے معیشت میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانا ہو گا۔ لیکن ہم ہر اس کام سے گریز کرتے ہیں جو ہمارے ملک کی ترقی میں معاون ثابت ہو۔ لہذا اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ اس بات سے انکار نہیں معیشت کا پہیہ تیز کرنے کے لیے خواتین کی شمولیت کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ لیکن پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے لیے دستیاب وسائل میں بھی اضافہ کیا جائے۔ لیکن وسائل سے بھی زیادہ اہم بات سوچ کی تبدیلی ہے۔ سوچ تبدیل ہو گی تو رویے تبدیل ہوں گے اور خواتین اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کر پائیں گی۔