1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عوام کا نفرت کے خلاف متحد اور کھڑے ہونا ضروری ہے، جرمن صدر

20 فروری 2021

جرمن شہر ہاناؤ میں ہونے والی اندھا دھند فائرنگ کا ایک سال انیس فروری کو مکمل ہو گیا۔ اس حوالے سے ایک یادگاری تقریب انیس فروری کو منعقد کی گئی، جس میں جرمن صدر کے علاوہ کئی اہم حکومتی شخصیات نے شرکت کی۔

https://p.dw.com/p/3pdKR
Deutschland | Hanau | Bundespräsident Frank-Walter Steinmeier
تصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance

جرمنی کے مالیاتی مرکز فریکفرٹ کے قریب واقع شہر ہاناؤ میں ایک نسل پرست جرمن شہری نے گزشتہ برس دو شیشہ بارز پر فائرنگ کر کے کم از کم نو تارکین وطن کی زندگیاں ختم کر دی تھیں۔ قاتل نے اپنی ماں کو بھی گولی مار کر ہلاک کیا اور خودکشی بھی کی۔

ایک سال کے بعد بھی ہاناؤ کے مقتولین کے ورثاء انصاف کے متلاشی ہیں اور وہ اس ملک میں نفرت اور نسل پرستی کے خاتمے کے منتظر ہیں۔ تقریب کے آغاز پر ہاناؤ کے میئر کلاؤس کامینسکی نے حاضرین کے لیے تمام مقتولین کے نام پڑھے۔

ہاناؤ المیہ، ایک سال مکمل ہونے پر بھی رنج و غم برقرار

جرمن صدر کا خطاب

ہاناؤ ٹریجڈی کے ایک سال مکمل ہونے پر سوگوار تقریب میں جرمنی کے صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کا کہنا تھا کہ جرمن قوم نفرت اور نسل پرستی سے پیدا ہونے والی معاشرتی تقسیم کی واشگاف انداز میں مذ‌مت کرے اور متحد ہو کر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑے۔ ہاناؤ میں ہلاک ہونے والے ترک اور مغربی افریقی تارکین وطن تھے۔

Deutschland Hanau l Demonstration l Ein Jahr nach dem Anschlag
ہاناؤ میں عام لوگ ایک ریلی میں نو مقتولین کی تصاویر اٹھائے ہوئے تھےتصویر: Michael Probst/AP Photo/picture-alliance

اشٹائن مائر نے مزید کہا کہ لوگوں کو حکومت کے ساتھ مل کر ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا اور ایسے تمام رویوں کی نفی کرنا ہو گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس پر افسوس ہے کہ ریاست عام لوگوں کے تحفظ، سلامتی اور آزادی فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جرمن صدر نے یہ بھی کہا کہ برائی پر مبنی کارروائیوں سے معاشرتی تقسیم ممکن ہوئی ہے۔

ہاناؤ حملے کے بعد مسلمانوں کی سکیورٹی بڑھانے کا فیصلہ

بدی کی قوتیں اور احساسِ ذمہ داری

صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے مقتولین کے لواحقین، حکومتی اہلکاروں، سیاسی ورکروں اور شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بدی کی قوتوں کو نظر انداز نہیں کرنا بلکہ ان پر نگاہ رکھنا از حد ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی قوت سے نفرت، کسی طبقے کو دیوار سے لگانا اور لاتعلقی پیدا ہوتی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے خلاف عملی طور پر متحد ہو کر کھڑے ہو جائیں۔

اس تقریب میں ترک نژاد رکنِ پارلیمنٹ عائدان اوساس نے دائیں بازو کے انتہا پسند حلقے کے جارحانہ رویوں کو اپنی تقریر کا موضوع بنایا۔ جرمن ریاست ہیسے کے وزیر اعلیٰ فولکر بوفیئر بھی میموریئل کانفرنس شریک تھے۔ اس تقریب میں خاص طور پر جرمنی میں پائی جانے والی دائیں بازو کی انتہاپسندی کو کنٹرول کرنا وقت کی ضرورت قرار دیا گیا۔

Deutschland Hanau | Gedenken an die Opfer des Attentat in Hanau
ہاناؤ میں ایک مقام پر تمام نو ہلاک ہونے والے افراد کی تصاویر پر پھول بھی لوگوں نے رکھےتصویر: Michael Probst/AP/picture alliance

صدماتی کیفیت

جرمنی میں پروٹیسٹنٹ چرچ کے سربراہ پادری ہائنرش بیڈفورڈ اشٹروہم نے  تقریب سے قبل ہاناؤ حملے کے حوالے سے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ عوام الناس کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے تا کہ ایسا درد ناک اور خونی واقعہ دوبارہ رونما نہ ہو سکے۔ اس المناک واقعہ کا انتہائی افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہلاک شدگان کے لواحقین ابھی تک شدید صدماتی کیفیت سے دوچار ہیں۔

اگر ہم جرمنی میں بھی محفوظ نہیں تو کہاں ہوں گے؟

سازشی نظریات

اس واردات میں ملوث نسل پسند قاتل ٹوبیاس آر کی عمر تینتالیس برس تھی اور وہ دائیں بازو کے انتہا پسند رویوں کا حامی ہونے کے علاوہ نسلی اقلیتوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ سازشی نظریات پر یقین بھی رکھتا تھا۔ قاتل نے چوبیس صفحات کا اپنے نظریات پر مبنی منشور بھی چھوڑا تھا۔

اس منشور میں اس نے واضح کیا تھا کہ جرمنی میں سے بعض ایشیائی، افریقی اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے افراد کا صفایا کر دینا چاہیے۔

 ع ح، ا ا (ڈی پی اے، اے پی)