1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عوام محو تماشہ

14 اکتوبر 2020

پاکستان میں کبھی ایک پارٹی نے دوسری کی حکومت گرا دی تو کبھی فوج نے ملک کا انتظام و انصرام سنبھالا۔ ہر پارٹی نے بدعنوانی بھی کی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی۔ اس صورت حال کا الزام کسی ادارے پر لگانا ہرگز درست نہیں۔

https://p.dw.com/p/3jvP6
تصویر: Privat

پاکستان کی تاریخ سیاسی عدم استحکام سے بھری پڑی ہے۔ پانامہ لیکس میں جب بدعنوان سیاستدانوں کے نام دنیا کے سامنے آئے تو گویا ایک بھونچال سا آ گیا اور اس بھونچال میں پاکستان کے سیاسی اسٹیج کے اداکار بھی ڈولنے لگے۔ ان تمام اداکاروں یا پرفارمرز کا طریقہ واردات ایک ہی رہا کہ غریب ملکوں سے پیسہ امیر مغربی ممالک جاتا رہا جہاں یا تو بینک بیلنس میں اضافہ کیا گیا یا پھر مہنگی ترین جائیدادیں خریدی گئیں۔ عموماً یہ پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجا جاتا رہا۔ ایان علی کیس اس کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ایسے کام ملک کی وہ اشرافیہ ہی کرسکتی ہے جو اثرو رسوخ رکھتے ہوئے اداروں پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتی ہو اور ساتھ ہی یہ اشرافیہ جرم کے ثبوت اور نشانات مٹانے میں بھی مہارت رکھتی ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ اپنے قیام کے فوراً بعد ہی بدعنوان مافیا کے ہاتھوں یرغمال بن گیا اور یہ صورت حال اس ملک کی ترقی میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی۔ اب چاہے زراعت ہو یا صنعت و حرفت، صحت ہو یا تعلیم کا شعبہ، روزمرہ استعمال کی اشیاء ہوں یا پینے کے صاف پانی کی دستیابی، ہر دور میں ہماری عوام ہی ان مسائل کو جھیلتے آئے ہیں۔ اس کے باوجود کم علمی اور جہالت کا یہ عالم ہے کہ یہی عوام پھر سے انہی سیاستدانوں کے جلسے جلوسوں میں کھڑے ہو کر نہ صرف نعرے لگاتے نظر آتے ہیں بلکہ جاں نثاری کے مظاہرے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال اندرون سندھ کے عوام ہیں، جہاں دہائیاں گزرنے کے باوجود نہ سڑکیں ہیں نہ تعلیم اور نہ ہی پینے کا صاف پانی۔ وسائل چاہے جتنے بھی کم ہوں یہ ممکن نہیں کہ اتنے برس گزرنے کے بعد بھی بنیادی سہولیات ہی میسر نہ کی جا سکیں۔ آج بھی اندرون سندھ میں بہت سے خاندان سڑک کنارے زندگی بسر کرتے نظر آتے ہیں۔ ان پسے ہوئے عوام کی زندگی کا مصرف شاید یہی ہے کہ سیاسی جلسے جلوسوں میں انہیں بسوں میں بھر کر لایا جائے اور اپنی سیاسی طاقت کا اظہار کرکے فخر کیا جائے۔

ان عدالتی کیسوں کی بات تو جانے ہی دیجیے جن پر ابھی کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن ہمارے ہردل عزیز سیاسی رہنما جنہیں عدالت مجرم ثابت کر چکی، کم ازکم وہ تو اب ہمارے ووٹ اور ہمدردی کے حقدار نہیں کہلانے چاہییں۔ لیکن صد حیف ہماری عوام کی عقلوں پر جو آج بھی ان کی پکار پر لبیک کہنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ہمارے سیاسی قائدین جلوسوں میں اور ٹاک شوز میں خود کو بےگناہ ثابت کرتے کرتے جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ اب گناہ ثابت ہونے جا رہا ہے تو غیرمعمولی طور پر ان کی طبعیت خراب ہوجاتی ہے، جس کا علاج صرف غیر ملکی ہسپتالوں میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہاں بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان لوگوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت کس نے دی اور جس کی یقین دہانی پر اجازت ملی اب وہ واپسی کے لیے کیا کردار ادا کر رہا ہے؟

سیاسی منظرنامے پر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا نام رکھ کر ساری حزب اختلاف ایک جگہ بیٹھ تو گئی لیکن دلچسپ لطیفہ یہ ہے کہ بقول شاعر:

’’عجب اعتبار بے اعتباری کے درمیاں ہے زندگی‘‘

ایک اٹھتا ہے کہ زرداری پر ہرگز اعتبار نا کرنا تو دوسری آواز ابھرتی ہے کہ نواز گروپ دھوکہ دے جائے گا۔ پہلے سب نے مل کر مولانا صاحب کو نظر انداز کیا لیکن اب ماشا اللہ سے اس تمام تحریک کی سربراہی بھی انہیں ہی سونپ دی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی ناکامی کا سہرا مولانا صاحب کے سر باندھ کر ان کی بلی چڑھانے کا منصوبہ ہے۔ شہباز شریف صاحب جوحزب اختلاف کے تو سربراہ ہیں لیکن پی ڈی ایم کی سربراہی انہیں شاید منظور نہیں۔ اس طوفان سے ''ش‘‘ تو شاید نکل آئے لیکن ''ن‘‘ اور ''م‘‘ کا مستقبل کچھ تابناک نظر نہیں آتا۔ سیاستدانوں کے مستقبل کے امکانات سے قطع نظر عوام کی حالت کے بارے میں کوئی خوش آئند تبدیلی کی امید عبث ہے۔ عوام محض تماشائی ہی نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب حکمران جماعت بھی اپنی مثال آپ ہے۔ جہاں وزراء کے بیانات ہی ایک دوسرے سے متضاد نظر آتے ہیں اور ایک عام آدمی اسی شش وپنج میں رہتا ہے کہ دراصل حکمراں جماعت کا نقطہ نظر کیا ہے؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب اپنی دنیا میں مست ہیں اور عوامی مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری لینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ اکثر معاملات میں عوام کو اعتماد میں لینے کے بجائے انہیں مخمصے میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ اس سال کراچی میں ہونے والی بارشوں میں پی پی پی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا تو دوسری طرف حکمران جماعت کے نمائندے پانی میں کھڑے ہوکر ویڈیوز اور سیلفی بنوا کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے۔ وزیراعظم کی فون کال آنے پر گورنر کی جانب سے سب ٹھیک ہے کا نعرہ لگا دیا گیا۔ عوام اس دوران بھی منہ اٹھائے دونوں جانب کی گولا باری کا جائزہ لیتی رہی۔ عوام پر بارش کی بوچھاڑ اور سیاستدانوں پر الزامات کی بوچھاڑ جاری رہی۔

 کورونا وائرس کے خطرے کے باوجود تمام احتیاطیں بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے یہ سیاستدان عوام کی زندگی اور مستقبل سے کھیل رہے ہیں مگر عوام محض خاموش تماشائی ہیں۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ملک کی ساری بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت انتشار کا شکار ہیں اور ڈوبتی کشتی میں سے صرف اپنی جان بچانے کے لیے کوشاں نظر آتی ہیں اور عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب عوام کس طرف دیکھیں؟ کس رہنما سے یہ امید رکھیں کہ وہ حالات کا دھارا درست سمت میں موڑ دے گا۔ عوام کو یہ کون بتائے گا کہ ''ہم لوگ بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا‘‘

سوال یہ نہیں کہ ایسا کب تک چلے گا بلکہ بقول فیض احمد فیض خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ سب ایسا ہی نہ چلتا رہے۔ ایسے سیاسی نظام سے تو توبہ بھلی۔