عنان شامی امن منصوبے کے ساتھ روس کے دورے پر
24 مارچ 2012وہ اس دورے کے دوران یہ جاننا چاہتے ہیں کہ روس اپنے عرب اتحادی ملک شام پر کس حد تک دباؤ ڈالنے پر تیار ہے۔ ماسکو سے ملنے والی رپورٹوں میں خبر ایجنسی اے ایف پی نے بتایا ہے کہ روسی حکومت بالآخر اقوام متحدہ کے اس مطالبے میں شریک ہو گئی ہے کہ شامی حکومت کو ملک کے ان تمام شہروں سے اپنے فوجی دستے واپس بلا لینے چاہیئں جہاں زبردست مظاہرے جاری ہیں۔ اس لیے کوفی عنان اپنے دورہ ماسکو کے دوران روسی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں یہ تعین کرنا چاہتے ہیں کہ روسی لیڈر اب دمشق حکومت پر کس حد تک دباؤ ڈالنے پر تیار ہیں۔
شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے امن مندوب کوفی عنان متوقع طور پر ہفتے کی شام روس پہنچیں گے۔ وہ کل اتوار کے روز ماسکو میں صدر دیمتری میدویدیف اور وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں کے بعد کوفی عنان ماسکو سے چین کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔
چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا روس کے بعد وہ دوسرا مستقل رکن ملک ہے جو ابھی تک بین الاقوامی برادری کی ان کوششوں کی مخالفت کر رہا ہے جو شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی مذمت کے لیے کی جا رہی ہیں۔
کوفی عنان اپنے ساتھ شام کے لیے مجوزہ امن منصوبے سے متعلق صدر بشار الاسد کا جواب بھی ساتھ لے کر ماسکو جا رہے ہیں۔ اس منصوبے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ شام میں ایک نمائندہ حکومت کے قیام کے لیے سیاسی تبدیلی کا عمل شروع ہونا چاہیے۔ تاہم اس منصوبے میں صدر اسد کے کسی ممکنہ کردار کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
روس نے گزشتہ بدھ کے روز پہلی مرتبہ سلامتی کونسل کے ایک ایسے بیان کی حمایت کر دی تھی جس پر عملدرآمد لازمی نہیں تھا۔ ماسکو نے اس بیان کی تائید اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کی تھی کہ اگر دمشق میں اسد انتظامیہ اس پر عمل نہ بھی کرے تو اس کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے کسی بڑی کارروائی کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سُوزن رائس نے اس بیان کے بارے میں اعتراف کیا تھا کہ شام کے بارے میں یہ اقوام متحدہ کا ایک درمیانی درجے کا اقدام ہے۔ اس کا مقصد شام میں ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے جاری خونریز حکومتی کارروائیوں اور حکومت مخالف مظاہروں کو بند کروانا ہے۔ شامی اپوزیشن کے مطابق سکیورٹی دستوں کی ان کارروائیوں اور عوامی مظاہروں میں اب تک نو ہزار ایک سو سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
روس سفارتی طور پر اب اس پوزیشن میں نظر نہیں آتا کہ دمشق حکومت کی آئندہ بھی غیرمشروط پشت پناہی جاری رکھے۔ ماسکو میں کریملن کے ساتھ قریبی رابطے رکھنے والے ایک روسی رکن پارلیمان نے شام کے بارے میں سلامتی کونسل کے حالیہ بیان کی منظوری کے بعد کہا تھا، ’اسد انتظامیہ کو اقوام متحدہ کے اس بیان کو ایک پرزور مشورہ سمجھنا چاہیے۔‘
روس کے اس رکن پارلیمان کا نام میخائیل مارگیلوف ہے اور وہ پارلیمان کے ایوان زیریں کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو مارگیلوف نے دمشق حکومت پر واضح کر دیا تھا کہ اقوام متحدہ کے شام سے متعلق حالیہ بیان پر اسد انتطامیہ کا رد عمل روس اور شام کے باہمی تعلقات میں مستقبل کے راستوں کا تعین کرے گا۔
میخائیل مارگیلوف نے واضح کر دیا تھا کہ پہلا قدم لازمی طور پر اسد انتظامیہ کو اٹھانا ہو گا۔ حکومت کو تمام بڑے شہروں سے سرکاری فوجی دستے واپس بلانا ہوں گے۔‘ اس روسی سیاستدان کے مطابق اس تنازعے میں ماسکو کا آئندہ مؤقف کیا ہو گا، اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ دمشق میں اسد انتظامیہ اب کیا فیصلے کرتی ہے۔
کئی تجزیہ نگاروں کے بقول کوفی عنان کے آج شروع ہونے والے دورہ ماسکو سے واضح ہو جائے گا کہ روس اب شام کے بارے میں کس طرح سوچ رہ ہے۔ میکسم یُوسین نامی ایک روسی صحافی نے اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’کوفی عنان کا دورہ ماسکو یہ وضاحت کر دے گا کہ اگر اسد انتظامیہ اب بھی کسی کی بات نہیں سنتی تو روس کیا کچھ کرنے پر تیار ہو گا۔‘
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: امتیاز احمد