1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کے ساتھ یہود و نصاریٰ آ رہے ہیں، مساجد میں اعلان

6 اکتوبر 2012

پاکستان کے سابق کرکٹر اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی قیادت میں قبائلی علاقوں پر امریکی ڈرون حملوں کے خلاف امن مارچ جنوبی وزیرستان کی طرف روانہ ہوگیا ہے لیکن یہ سفر پُرخطر بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/16Lch
تصویر: AP

عمران خان جب اسلام آباد سے روانہ ہوئے تقریباً ڈیڑھ سے دو سو گاڑیوں کا قافلہ ان کے ہمراہ تھا۔ اس موقع پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ان کا یہ امن مارچ ڈرون حملوں کے خلاف تاریخی ثابت ہوگا۔ ان کا مقصد پرامن مارچ کرنا ہے اور وہ کسی سے لڑنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جوں جوں امن مارچ اپنی منزل کی طرف بڑھتا جائے گا اس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی جائے گی۔

حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے عمران خان نے کہا، ’’حکومت نے خوف پھیلانے کی پوری کوشش کی، ڈیرہ اسماعیل خان کی مساجد میں کہا جا رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ آ رہے ہیں۔ یہ بیچاری عورتیں ہزاروں میل سے پاکستانیوں کے انسانی حقوق کے لیے آئی ہیں اور ان کو یہود و نصاریٰ کہا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 9 خودکش حملہ آور آ گئے ہیں۔ اگر آپ رد عمل کی بات کر رہے ہیں تو یہ تاریخی ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک سمندر ڈی آئی خان سے نکلے گا اور اس کے سامنے کنٹینرز اور ٹینکرز کچھ بھی کھڑا نہیں ہو سکے گا۔‘‘

Protestzug gegen US-Drohnenangriffe in Pakistan
تصویر: Reuters

عمران خان کے ہمراہ امن مارچ میں جنگ مخالف امریکی گروپ کوڈ پنک کے 30 سے زیادہ کارکن بھی شریک ہیں۔ ان کارکنوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے جو ڈرون حملوں کے خلاف اور قبائلی لوگوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان آئی ہیں۔

عمران خان کے ہمراہ جانے والوں میں بڑی تعداد کالج اور یونیورسٹی طلبہ کی بھی ہے، جو انتہائی جوش و خروش سے اس امن مارچ میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی عمران خان کی جماعت پشاور میں ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجی دھرنا دے چکی ہے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ انہوں نے جنوبی وزیرستان جانے کا اقدام اٹھایا۔

Bildergalerie Cricket Imran Khan Politik
تصویر: Getty Images

دوسری جانب بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اس مارچ کے ذریعے اپنی جماعت کو سیاسی طور پر بھی مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ تجزیہ کار سلیم صافی کا کہنا ہے، ’’یہ ڈرون حملے وزیرستان پر ہو رہے ہیں ناں کہ وزیرستان سے ہو رہے ہیں، تو میرے خیال میں اگر دنیا کو اس طرف متوجہ کرنا مقصود تھا یا امریکا، جو ان حملوں کا ذمہ دار ہے اور پھر حکومت پاکستان ، جس نے اس حملوں کی اجازت دے رکھی ہے، تو ان کے سامنے احتجاج واشنگٹن میں بھی ہو سکتا تھا اور اسلام آباد میں بھی۔ اس کے لیے سیکورٹی فورسز اور پولیس کو آزمائش میں ڈالنا اور پھر کارکنوں کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کرنا میرے خیال میں کوئی مناسب اقدام نہیں ہے۔‘‘

دریں اثناء جنوبی وزیرستان کی مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کو اس مارچ کی اجازت نہیں دی کیونکہ وہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو سکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے۔ ادھر ڈیرہ اسماعیل خان سے موصولہ اطلاعات کے مطابق شہر میں پنجابی طالبان کی طرف سے عمران خان کے خلاف پمفلٹ تقسیم کیے گئے ہیں جبکہ پولیس نے شہر میں سیکورٹی انتہائی سخت کر رکھی ہے۔ ادھر حکام نے ٹانک شہر میں بھی سیکورٹی سخت کر دی ہے اور کنٹینرز منگوا کر وزیرستان جانے والے راستوں کو بند کر دیا گیا ہے اور دیگر شہروں سے پولیس کی بھاری نفری طلب کر کے یہاں تعینات کر دی گئی ہے۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کو ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں آج رات ان کا پڑاؤ ہوگا یا پھر ٹانک میں ہی روک لیا جائے گا اور انہیں وزیرستان نہیں جانے دیا جائے گا۔

اسلام آباد سے روانگی کے موقع پر بھی عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ وزیرستان پہنچیں یا نہ پہنچیں وہ اس بات کوکامیابی سمجھتے ہیں کہ انہیں ابھی تک ڈرون حملوں کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بڑی پذیرائی مل چکی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امتیاز احمد