1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کا ہنی مون کب تک چلے گا؟

شاہ زیب جیلانی
6 مارچ 2021

پاکستان میں بعض قوتیں موجودہ مفلوج "ہائیبرڈ نظام" کا تسلسل چاہتی ہیں، لیکن قومی اداروں میں بظاہر اس تجربے کا مزید بوجھ برداشت کرنے کی سکت ختم ہو رہی ہے۔ شاہ زیب جیلانی کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3qItN
 Pakistani Prime Minister and Pakistans army chief.
تصویر: Pakistan's Prime Minister's Office

وزیراعظم عمران خان نے ہفتے کو حسب توقع قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے لیا اور پہلے سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ اس کامیابی کے بعد انہوں نے جو تقریر کی اس میں انہوں نے اپنی وہی باتیں دہرائیں جو وہ کنٹینر پہ کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے۔ وہی چور ڈاکو کے الزامات، ریاست مدینہ کا خواب، کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت، شوکت خانم ہسپتال کا قیام، وغیرہ وغیرہ۔

سات آٹھ سال پہلے پاکستانیوں کے ایک حصے کو عمران خان کا یہ بیانیہ بڑا پسند آیا۔ انہیں لگا کہ ملک کو اسی قسم کے ایک بے لوث اور ایماندار رہنما کی ضرورت ہے۔ روایتی سیاست سے نفرت کرنے والے پڑھے لکھے، کاروباری اور نوکری پیشہ لوگ عمران خان کے کرپشن کے خلاف بیانیے سے انتہائی متاثر تھے۔ خواتین اور نوجوان کو لگا کہ خان صاحب کا "تبدیلی" کا نعرہ جیسے ان کے دل کی آواز ہے۔

عمران خان کسی نہ کسی طرح ایک "انجینئیرڈ الیکشن" کے توسط سے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ ان پر ہر طرف سے عدلیہ اور فوج کی بیساکھیوں پر مسندِ اقتدار پر پہنچنے کے الزام لگے اور ایک "کٹھ پتلی وزیراعظم" کی چھاپ لگ گئی۔

لیکن ان کے حامیوں نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ "گٹر کی صفائی کے دوران اپنے اوپر گند تو برداشت کرنا پڑتا ہے۔" 

Shahzeb Jillani DW
تصویر: DW

لیکن پھر ہم دیکھتے ہی رہ گئے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پچھلے ڈھائی سال کیسے یو ٹرن پہ یوٹرن، قول و فعل کے تضادات اور کھوکھلے نعروں کی نذر ہوگئے۔ اس دوران عمران خان ملک کو درپیش معاشی بحرانوں سے نکالنے میں مکمل طور پر بے بس نظر آئے اور انہوں نے سیاسی فضا کو مسلسل کشیدہ رکھا۔

ہفتے کو قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ ان کے سیاسی سفر میں اقتدار کے پچھلے ڈھائی سال سب سے کٹھن گذرے ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ ایک لمبا ہنی مون تھا، جس میں انہیں اقتدار میں لانی والی ایسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایسی بھرپور حمایت حاصل رہی جو شاید ہی ماضی کی کسی منتخب حکومت کے حصے میں آئی ہو۔

ایسے میں اسلام آباد سے سینیٹ کی نشست پر پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی جیت عمران خان کے لیے پہلا بڑا جھٹکا ثابت ہوئی ہے۔ اس سے پہلے پی ٹی آئی کو ضمی انتخابات میں ملک کی بیشتر سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے  بعد وزیراعظم فی الحال اپنے اوپر سے کچھ پریشر ہٹانے میں کامیاب ہوگئے ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید دباؤ نہیں آئے گا۔

اگلا امتحان چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوگا۔ ایوانِ بالا میں اب پی ڈی ایم کی اکثریت ہے۔ اس لیے وہاں حکومت کا چیئرمین ہٹانے کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے پھر صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

آپ چاہے حکومت کے حامی ہوں یا مخالف، ایک بات واضح دکھائی دے رہی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا اقتدار میں طویل ہنی مون ختم ہو رہا ہے۔ انہیں اقتدار میں لانے والی غیرسیاسی شخصیات بھلے ہی اب بھی اس موجودہ مفلوج "ہائیبرڈ نظام" کا تسلسل چاہتی ہوں، لیکن گذرتے وقت کے ساتھ یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان اور اس کے ادارے اس تجربے کا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔

عمران خان کے پرستار کہتے ہیں کہ کپتان بہت ضدی ہے، آسانی سے ہار نہیں مانے گا۔ لیکن قدرت کا قانون ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ سیاست میں طاقت کا محور گھومتا رہتا ہے اور بعض اوقات دیکھتے ہی دیکھتے اقتدار آپ کے ہاتھوں سے ریت کی طرح نکل جاتا ہے۔

آج نہیں تو کل عمران خان پر بھی یہ وقت آئے گا کیونکہ سیاست میں عمومی طور پر اور پاکستان میں خاص طور، سیاسی کیرئیر کا اختتام ناکامی پر ہی ہوتا ہے۔