1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمر رسيدہ تارکين وطن کو يورپ ميں کن چيلنجز کا سامنا ہے؟

عاصم سلیم Marion MacGregor
2 اکتوبر 2018

يورپ ميں پناہ کے مقصد سے پہنچنے والے پينسٹھ برس سے زائد عمر کے مہاجرين کا تناسب گو کہ ايک فيصد بھی نہيں ليکن انہيں درپيش چيلنجز اور ان کی مخصوص ضروريات کو اکثر نظر انداز کيا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/35rUg
106-Jährige Afghanin Bibihal Uzbek
تصویر: picture-alliance/PIXSELL/D. Javorovic

عمر رسيدہ افراد کے ليے برطانوی ادارے ’سينٹر فار پاليسی آن ايجنگ‘ نے اپنی ايک تازہ تحقيق ميں معمر مہاجرين کو درپيش چيلنجز کی نشاندہی کی جن ميں تنہائی، سماجی سطح پر اکيلے پن کا احساس، نفسياتی مسائل، زبان سيکھنے ميں مشکلات اور آمدنی کا نہ ہونا شامل ہيں۔

دنيا بھر ميں لوگوں کی اوسط عمر ميں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق صورتحال کچھ يوں ہے کہ سن 2050 تک ساٹھ برس سے زائد عمر کے افراد کی تعداد بارہ برس سے کم عمر لوگوں کے مقابلے ميں زيادہ ہو گی۔ ايسے ميں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بزرگ افراد کی ضروريات کے بارے ميں بات چيت ہو اور باقاعدہ حکمت عملی طے کی جائے۔ مہاجرين کے تناظر ميں بات کی جائے تو يہ بھی ضروری ہے کہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ عمر رسيدہ مہاجرين کو درپيش چيلنجز کے بارے ميں بھی گفتگو ہو۔

زیادہ عمر کے افراد عموماً مہاجرين کی صفوں ميں دکھائی نہيں ديتے۔ اس کی ايک وجہ يہ ہے کہ يورپ پہنچنے والے تارکين وطن کی بھاری اکثريت نوجوان مردوں پر مشتمل اور يہ بھی کہ یورپ میں پينسٹھ سال سے زائد عمر کے پناہ گزینوں کا تناسب ايک فيصد سے بھی کم ہے۔ گرچہ تناسب کے اعتبار سے ان کی تعداد کم ہے لیکن يورپ کے مختلف ملکوں ميں معمر افراد کی تعداد کم نہيں۔ اس بارے ميں آگہی بڑھتی جا رہی ہے کہ مہاجرين کے اس گروپ کی بھی چند مخصوص ضروريات ہيں۔

يورپی ممالک ميں موجود پناہ کے متلاشی افراد کے ليے ملازمت کا حصول ويسے ہی ايک بڑی رکاوٹ ہے ليکن اگر عمر زيادہ ہو تو يہ پريشانی اور بھی زيادہ بڑھ جاتی ہے۔ جرمنی ميں رہنے والے غير ملکيوں، خواہ انہيں باقاعدہ پناہ ملی ہو يا نہيں، کو پينشن لازمی طور پر ملتی ہے ليکن اس سے گزارا اتنی آسانی کے ساتھ ممکن نہيں۔

زبان کا سیکھنا سماجی انضمام کے عمل کا ايک لازمی جزو ہے ليکن زيادہ عمر ميں ايک نئی زبان سيکھا کٹھن مرحلہ ثابت ہوتا ہے۔ يہی وجہ ہے کہ يورپ ميں موجود بزرگ مہاجرين کو اس ضمن ميں دشوارياں پيش آتی ہيں، جو ان کے انضمام کے عمل کو بھی متاثر کرتی ہيں۔

علاوہ ازيں زيادہ عمر کے مہاجرين ميں نفسياتی و طبی مسائل بھی ايک حقيقت ہيں۔ اردن ميں موجود عمر رسيدہ شامی مہاجرين کے بارے ميں تحقيق کرنے والے سيگرڈ ليوپيری کے بقول حکام اکثر اس گروپ کی طبی ضروريات کے بارے ميں معلومات جمع نہيں کرتے۔ ليوپيری کا مزيد کہنا ہے کہ اس بات کو بھی کوئی اہميت نہيں دی جاتی کہ معمر مہاجرين معاشرے ميں کيا کردار ادا کرتے ہيں۔ ان کے بقول ايسے مہاجرين اثاثہ بھی ثابت ہو سکتے ہيں۔ مثال کے طور پر انہيں بچوں کی ديکھ بھال کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ معلومات کے تبادلے، مختلف ثقافتوں کے بارے ميں آگہی بڑھانے جيسے معاملات ميں بھی ايسے تارکين وطن اثاثہ ثابت ہو سکتے ہيں۔