1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

علماء خُدا کے آگے جواب دہ ہیں، السیسی

کشور مصطفیٰ31 مئی 2015

مصری صدر عبدالفتاح السیسی ملک میں عسکریت پسندی کے خلاف محض جنگی طیاروں اور فوج پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ وہ سفید پگڑی والے علماء کو بھی اس جنگ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FZo3
تصویر: AFP/Getty Images/K.Desouki

مصری صدر السیسی نے مسلم علماء سے اپیل کی ہے کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف کلاس رومز میں مہم چلائیں۔ اس کے لیے انہوں نے مصر میں قائم اسلامی علوم کے ایک ہزار سال پُرانے مرکز جامع الازہر کے علماء کو متحرک کرنے کی ایک مہم چلائی ہے۔ رواں برس جنوری میں الازہر کانفرنس کے موقع پر السیسی نے ایک ٹیلی وژن تقریر کی، جس میں انہوں نے ایک ’مذہبی انقلاب‘ کی بات کی۔

السیسی نے کانفرنس میں شریک علماء سے مخاطب ہو کر کہا کہ انتہا پسندانہ سوچ دراصل دنیا بھر میں تباہی و بربادی پھیلانے، قتل و غارت گری اور خوف و ہراس کا منبع بن چُکی ہے۔ السیسی نے علماء سے مطالبہ کیا کہ وہ اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے موثر اقدامات کریں۔

علماء کی ذمہ داریاں

مصری صدر السیسی نے کہا ہے کہ علما اور اساتذہ کا معاشرے میں ایک کلیدی کردار ہے۔ خاص طور سے اسکولوں، مساجد اور مواصلاتی نظام میں۔ السیسی نے علماء سے خطاب میں کہا،’’ آپ آئمہ خُدا کے آگے جوابدہ ہیں۔ پوری دنیا آپ کی منتظر ہے۔ آپ کے اگلے بیان پر دھیان لگائے ہوئے ہے کیونکہ یہ قوم لخت لخت ہو چُکی ہے۔‘‘

Ägypten Studenten Protest Al-Azhar Universität Kairo 27. Dez.
جامع الازہر طلبا کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی مانا جاتا ہےتصویر: Reuters

مصری صدر کے یہ بیانات علماء کے لیے اچنبھے سے کم نہیں تھے۔ السیسی کی بے باکی اور شعلہ بیانی سُن کر الازہر کے علماء کے چہرے ’’لٹھے کی طرح سفید‘‘ ہو گئے۔

السیسی کا انتباہ اُن کے وسیع تر ارادوں کی نشاندہی ہے۔ وہ ملک میں انتہا پسند اسلامی تحریکوں کے خلاف ایک طرف تو قانونی اقدامات اور ظالمانہ حد تک فوجی قوت کا استعمال کر رہے ہیں اور دوسری جانب وہ معتدل اور نسبتاً کم سیاسی نظریات کے حامل عقیدے کے فروغ کی کوششیں کر رہے ہیں۔

الازہر ایک اہم محاذ

مصری صدر السیسی کے لیے جامع الازہر غیر معمولی اہمیت کا حامل ایک ادارہ ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنے ملک کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے ایک وسیع تر خطے میں تبدیلیوں کے امکانات دیکھ رہے ہیں۔ عرب دنیا کے فکری اور ثقافتی دارالحکومت کی حیثیت رکھنے والے ملک مصر میں کی جانے والی اس جدو جہد کے اثرات سرحد پار علاقوں پر مرتب ہوں گے۔

AL-Azhar
جامع الازہر سے ساڑھے چار لاکھ طالبعلم علم حاصل کر رہے ہیںتصویر: DW/R.Mokbel

الازہر کے اساتذہ، محققین اور مبلغوں نے چند چھوٹی موٹی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔ ان میں نصابی کتابوں میں میں توڑ مروڑ کر پیش کیے جانے والے متن اور ایک آن لائن مانیٹرنگ سینٹر کا قیام قابل ذکر ہے۔ اس طرح سے نگرانی کا مقصد سوشل میڈیا پر انتہا پسندانہ اور عسکریت پسندانہ پیغامات کے تبادلے پر کڑی نظر رکھنا ہے۔ اس ادارے کے اہلکاروں کو بخوبی اندازہ ہے کہ یہ اُن کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے۔ الازہر کے محققین، مبلغین اور اساتذہ تاہم اب تک کوئی ٹھوس اصلاحاتی پروگرام تشکیل نہیں دے پائے ہیں۔