1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق: پرتشدد واقعات میں31 افراد ہلاک

23 اپریل 2013

عراق کے شہر کرکوک میں ایک حکومت مخالف مظاہرے کے دوران سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے مابین تازہ جھڑپوں میں کم از کم ستائیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18LP1
تصویر: Reuters

ملک کے سنی مسلمانوں کی جانب سے شیعہ وزیراعظم نوری المالکی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ چار ماہ سے جاری ہے۔ منگل کے روز ہونے والے مظاہرے کے بارے میں عراق کے اعلیٰ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ کرکوک کے شمالی قصبے الحویجہ میں منظم کیے جانے والے مظاہرے میں عسکریت پسند عناصر گھس گئے تھے جبکہ مظاہرے کے منتظمین کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو مطلوب کوئی مشتبہ شخص مظاہرے میں موجود نہیں تھا۔

فوج کے اعلیٰ حکام نے ستائیس افراد کے ہلاک اور ستر کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں صبح پانچ بجے شروع ہوئیں۔ اس خون ریزی کی وجوہات سے متعلق متضاد اطلاعات دی جا رہی ہیں۔

Irak Bildergalerie Saddam Hussein Sturz 10 Jahre danach
عراقی شہر موصل میں حکومت مخالف مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa

ایک عراقی بریگیڈیئر جنرل نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کا آپریشن عسکریت پسند گروپ ٫نقشبندیہ آرمی‘ کے خلاف تھا اور اُن کی جانب سے فائرنگ کے بعد سکیورٹی فورسز نے جواباﹰ فائرنگ کی۔

ایک اور اعلیٰ فوجی اہلکار کے مطابق مظاہرے کی جگہ سے چونتیس کلاشنکوف رائفلیں اور چار پی کے ایم مشین گنز بھی برآمد کی گئی ہیں۔ آپریشن میں دو فوجی ہلاک اور سات زخمی بھی ہوئے جبکہ دوسرے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا تعلق عسکریت پسندوں یا مظاہرین سے ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ جھڑپیں آرمی کی جانب سے شروع کی گئیں۔ اُن کے مطابق سکیورٹی فورسز نے منگل کے روز دھرنے پر حملہ کیا، خیمے جلائے اور مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کر کے درجنوں افراد کو ہلاک یا زخمی کر دیا۔ اس پر عرب قبائلی اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے مظاہرین کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے آرمی کی کئی چوکیوں پر حملہ کر دیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس دھرنے کی حفاظت کے لیے صرف چار رائفلیں تھیں اور ان کے درمیان کوئی مطلوب فرد موجود نہیں تھا۔

پرتشدد جھڑپوں پر ملک کے سنی وزیر قانون محمدعلی تامیم نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے۔ علی تامیم کا کہنا تھا کہ اُن کا فیصلہ حتمی ہے اور وہ اپنا استعفیٰ واپس نہیں لیں گے۔

کرکوک کی صوبائی کونسل کے رہنما حسن توران نے کہا ہے کہ کونسل نے مظاہرین کے خلاف حکومتی فورسز کی کارروائی پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ سے کہا کہ وہ علاقے میں امن و امان کی بحالی کے لیے مداخلت کرے۔

واضح رہے کہ تشدد کے ان تازہ واقعات سے پہلے اقوام متحدہ کے نمائندے مارٹن کوبلر نے الحویجہ میں مخالفین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی تھی۔

جھڑپوں کے بعد الحویجہ اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ منگل کے روز ہی جنوبی بغداد میں سڑک پر نصب دو بم پھٹنے سے چار افراد ہلاک اور چودہ زخمی ہو گئے۔

zh/aa (AFP)