1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم حقوق اطفال اور اپنے حقوق کے منتظر پاکستانی بچے

شکور رحیم، اسلام آباد20 نومبر 2014

آج جمعرات بیس نومبر کے روز دنیا بھر میں حقوقِ اطفال کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اور پاکستان میں بھی سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/1DqVK
تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

حکومت پاکستان نے 1990ء میں اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنوینشن پر دستخط کیے تھے لیکن اس کے بعد سے اب تک بچوں کے حقوق سے متعلق کوئی قابل ذکر بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی علاقائی ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا کارِین ہلشوف کے مطابق پاکستان میں 65 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جو بچے اسکولوں میں جاتے بھی ہیں، ان کا تعلیمی معیار یہ ہے کہ پانچویں جماعت کا بچہ دوسری جماعت کی اپنی ہی مادری زبان میں درسی کتب پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

اسی طرح پاکستان میں نوزائیدہ بچوں میں شرح اموات بھی کافی زیادہ ہے۔ پاکستانی صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں موت کا رقص جاری ہے، جہاں بھوک کا شکار درجنوں بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ بچوں کے حقوق کے تفظ کے دن کی مناسبت سے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف کا کہنا ہے کہ ملک میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں گزشتہ کئی ماہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت کی طرف سے اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے ٹھوس اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے۔

Pakistan Flut Überschwemmung
’ملک میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے‘تصویر: AP

زہرہ یوسف نے کہا، ’’سندھ حکومت یہی کہہ رہی ہے کہ اس کا قحط سے کوئی تعلق نہیں اور سندھ میں غذا کی کمی نہیں ہے۔ حالانکہ اعداد و شمار دیکھیں تو پاکستان میں سب سے زیادہ غذائی قلت سندھ میں ہے۔ سب سے پہلے تو حکومت کو اس انکار سے پیچھے ہٹنا ہو گا۔ تسلیم کریں کہ یہ بہت بڑا ایشو ہے اور اسے پالیسی کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

زہرہ یوسف کے مطابق حکومت پنجاب نے ایک چلڈرن پروٹیکشن سینٹر قائم کر رکھا ہے، جو ناکافی ہے۔ اس حوالے سے تمام صوبوں میں بچوں کی حفاظت کے مراکز قائم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کمیشن قائم کیا جانا تھا لیکن یہ معاملہ ابھی تک زیر التواء ہے۔

'سیو دا چلڈرن‘ نامی بچوں کے حقوق کے تحفظ کی تنظیم کے ڈائریکٹر ارشد محمود کے مطابق پاکستان نے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف پر دستخط تو کر رکھے ہیں لیکن اس سمت میں پیش رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔

Pakistan - Save the Children
’جو بچے اسکولوں میں جاتے بھی ہیں، ان کا تعلیمی معیار یہ ہے کہ پانچویں جماعت کا بچہ دوسری جماعت کی اپنی ہی مادری زبان میں درسی کتب پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘‘تصویر: picture-alliance/dpa

ارشد محمود نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’خاص طور پر آرٹیکل پچیس (اے) ہے ہمارے آئین میں، جو کہ پانچ سے لے کر سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کو بنیادی حق بناتا ہے۔ لیکن پھر بھی بڑی تعداد میں بچے اسکولوں میں نہیں جا رہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے وسائل اس طرح سے مختص نہیں کیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت اور صوبوں کو بچوں کو ترجیح دینی چاہیے تاکہ پاکستان میں بچوں کی صورتحال بہتر ہو۔‘‘

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ بھی انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے انتہائی تشویشناک بات ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری پاکستانی تنظیم 'ساحل‘ کے مطابق ملک میں روزانہ اوسطاً نو سے دس بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں۔ 'ساحل‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں رواں برس بچوں کے خلاف جنسی استحصال اور تشدد کے واقعات میں 48 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

'ساحل‘ کے مطابق رواں برس جنوری اور جون کے درمیان 1786 بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور استحصال کے واقعات پیش آئے، جن میں سے 66 فیصد بچیاں تھیں۔ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران یہ تعداد 1204 رہی تھی۔ اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق سے متعلق کمیٹی نے حالیہ سالوں میں پاکستان میں بچوں کے حقوق سے متعلق مثبت اقدامات کا خیر مقدم بھی کیا ہے، جن میں ملازمت کے لیے بچوں کی کم سے کم عمر کے تعین کے ایکٹ میں ایک ترمیم کی منظوری بھی شامل ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید