’پاکستان کی مناسب مارکیٹنگ اور برانڈنگ نہیں ہوئی‘
3 اکتوبر 2018ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان ٹریول مارٹ نامی بین الاقوامی نمائش کا آغاز گزشتہ برس کیا گیا تھا۔ اس سلسلے کی اولین نمائش یعنی ٹریول مارٹ 2017 میں دس ممالک سے تعلق رکھنے والی 145 کمپنیاں شریک ہوئی تھیں۔ جبکہ اس سال 20 ممالک کی 200 سے زائد کمپنیاں اس مارٹ میں شریک ہیں۔
ٹریول مارٹ 2018 میں چین، سعودی عرب، تھائی لینڈ، ملیشیا، سری لنکا، ترکی، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، بنگلادیش، ویتنام، ایران، کویت، قطر اور بحرین سمیت کئی دیگر ممالک کے سفارت کار اپنے ٹورازم بورڈز اور ٹورازم کمپنیوں کے ساتھ شریک ہیں۔
اس سہ روز ہ کانفرنس اور نمائش کی افتتاحی تقریب میں صوبائی وزیر برائے سیاحت سید سردار علی شاہ، اور ایم کیو ایم کے رہنماء فاروق ستار سمیت سیاحت کے شعبہ سے منسلک قومی اور بین الاقوامی شخصیات نے شرکت کی اور اس تقریب کو سیاحت کے فروغ کے لیے ایک مثبت اقدام قرار دیا۔ تقریب کے افتتاح کےموقع پر صوبائی وزیر سیاحت سردار علی شاہ کا کہنا تھا، ’’اٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ میں سیاحت کو فروغ ملا ہے۔ دہشتگردی سے سیاحت متاثر ہوئی تھی مگر اب صورت حال بہتر ہے تاہم اب بھی مزید کام کی گنجائش باقی ہے۔‘‘
نمائش میں ایم کیو ایم رہنماء فاروق ستار بھی موجود تھے جن کا اس موقع پر کہنا تھا کہ اس طرح کی کوششوں کی پاکستان کو اشد ضرورت ہے جو معیشیت کو مضبوط کریں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس ایونٹ میں جس طرح بین الاقوامی مندوبین کی شرکت یقینی بنی ہے اس طرح پاکستان کی بہتر عکاسی ہوسکے گی۔
پاکستان میں یہ نمائش معنقد کرنے والی کمپنی لینڈ مارک کمیونیکیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر علی نقی ہمدانی نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس تقریب کو دیگر ممالک کے ساتھ بہتر سماجی و معاشی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے بھی ایک سنگ میل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا، ’’پاکستان کے تمام صوبائی ٹورازم بورڈز اس نمائش میں شامل ہیں۔ ٹورزم کے حوالے سے جتنے بھی اسٹیک ہولڈرز ہیں، چاہے وہ بیرون ملک سے ہوں یا پاکستان سے، وہ سب کراچی میں ہیں اور مزید دو دن تک موجود رہیں گے ۔ پاکستان میں سیاحت، پاکستان کی سیاحت اور پاکستان کے ایک سافٹ امیج کو دنیا بھر میں اجاگر کرنےکی کاوش ہو رہی ہے اور آج اس کاوش کو ہم بہت حد تک کامیاب دیکھ رہے ہیں۔‘‘
علی ہمدانی کے مطابق پاکستان کی سیاحت میں جو اب تک سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے وہ ہے اس ملک کے حوالے سے دنیا کے سامنے اس کا تصور، ’’پاکستان ایک ایسی پراڈکٹ ہے جس کی مناسب طریقے سے مارکیٹنگ اور برانڈنگ نہیں ہوئی۔ پراڈکٹ کے اندر کوئی خامی نہیں ہے۔ جو لوگ پاکستان سیاحت کے لیے آتے ہوں وہ خوش ہو کر یہاں سے جاتے ہیں۔ وہ یہاں دوبارہ آنا چاہتے ہیں اور یہاں کے کلچر، یہاں کے لینڈ اسکیپ، یہاں کی تہذیبوں اور ثقافتوں سے روشناس ہونا چاہتے ہیں۔ یہ ملک وسائل سے نہایت مالا مال ہے لیکن جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ہے بیرون ملک پاکستان کا امیج، اس ملک کے بارے میں خیالات۔ یہاں پر سیاح آتے ہیں چاہے وہ یورپ سے ہوں یا امریکا سے یا فارس سے، ہم ان کو پاکستان کی کہانی سنانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اسی لیے ہم نے یہ کاوش کی ہے کہ وہاں سے لوگوں کو ہم بلائیں اور ان کو بتائیں اور دکھائیں کہ پاکستان کی حقیقت کیا ہے۔‘‘
اس وقت سیاحت کے فروغ کے حوالےسے پاکستان میں پرائیوٹ کے علاوہ حکومتی سیکٹر بھی نہایت فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں وفاقی سطح پر ایک ٹاسک فورس بنائی گئی ہے جو ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔ علی ہمدانی کے بقول یہ ٹاسک فورس ایک ایسا خیال تھا جس کے نفاذ کے لیے کافی عرصے سے کوشش ہو رہی تھی کیونکہ دنیا بھر میں وفاق کی سطح پر ایسا ادارہ ہوتا ہے جو کہ پاکستان میں نہیں تھا اور اب ایسے ادارے کا قیام ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔