1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی حدت اور دریائے نیل کا ڈیلٹا

29 جنوری 2010

عالمی حدت کا جہاں اثر ترقی یافتہ ممالک پرپڑرہا ہے وہیں مصر سمیت کئی ترقی پزیر ریاستیں بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس حدت کا شکار دریائے نیل کا ڈیلٹا ہے، جس سے ہزاروں انسانوں کا روزگار وابستہ ہے۔

https://p.dw.com/p/Ln82
تصویر: Thomas Kruchem

مصرکی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی سے حیثیت رکھنے والے دریائے نیل کا ڈیلٹا ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ ہزاروں لوگوں کی روزگار کا یہ ذریعے سمندری پانی کے بڑھنے کی وجہ سے بے مصرف نمکیلی زمین میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔

دریائے نیل کا ڈیلٹا صدیوں سے مصر کے کسانوں کی امیدوں اور تمناوں کا مرکز رہا ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں غریب کسانوں کی امیدوں پر پانی پھیر دینے کا باعث بنتی نظرآرہی ہیں۔ کچھ کسان اپنی زمینوں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں تو دیگردریا بُرد ہو جانی والی زمینوں کی سطح کو دوبارہ ہموار کرنے کے لئے ریت درآمد کر کے تباہ کن ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کی تگ و دومیں مصروف ہیں۔

ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی حدت نہ صرف ڈیلٹا کے زرعی وسائل اور سیاحت پر منفی اثرات مرتب کرے گی بلکہ اس سے خطے کی قدرتی ہیت بھی بہت حد تک تبدیل ہوجائے گی۔ جس کے نتجے میں علاقے سے انسانی ہجرت ہوگی۔

گزشتہ ایک صدی میں بحرہ روم کی سطح ۲۰ سینٹی میڑ یعنی چھ انچیزبڑھی ہے اور نمکین پانی کی یلغار نے خطے کو ایک بڑی مشکل سے دوچار کردیا ہے۔

Blick über den Wasserfall Blue Nile Falls in der Nähe von Bahir Dar in Äthiopien
تصویر: picture-alliance / dpa

مصر کی دوسری بڑی بندرگاہ پر کی جانے والی ایک سرکاری تحقیق کے مطابق سطح سمندر کے بڑھنے کے ابھی بھی امکانات ہیں، جس سے زمین کے بہت سے حصے زیرآب آجائیں گے۔ اندازہ کیا جارہا ہے کہ دوہزار پچیس تک سطح سمندر میں ۳۰ سینٹی میٹر کا اضافہ ہوگا، جس سے ۲۰۰ اسکوائر کلو میڑ کا علاقہ زیرآب آجائے گا۔ اس کے نتیجے میں پچاس لاکھ سے زائد لوگ گھربار سے محروم ہوجائیں گے جب کہ ستتر ہزار لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ملک میں خوراک کی شدید قلت ہوجائے گی اوراس صدی کے آخر تک سات ملین افراد ماحولیاتی مہاجرین بن جائیں گے۔

آٹھ کروڑ کی آبادی والے مصر کے لئے دریائے نیل کا زرخیز ڈیلٹا ایک تہائی فصلوں کا مرکز ہے۔ ان فصلوں کا ایک بڑا حصہ برآمد کردیا جاتا ہے جو ملک کی آمدنی کا ایک اہم زریعہ ہے۔

کچھ انجینرنگ کمپنیاں اس صورتِ حال کے پیشِ نظر یہ تجویز پیش کرتی ہیں کہ سمندری پانی کو روکنے کے لئے یا تو کوئی بڑی باڑھ بنائی جائے یا بھر دیوار تعمیر کردی جائے۔ یہ دیوار سمندر کو زمینی علاقے سے علیحدہ کرنے کے علاوہ ساحل کو سمندر سے چھ فٹ اونچا کر دے گی۔ اس کے علاوہ اس سے زمین کے زیر آب آنے کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

یہ تجاویز ایک پروجیکٹ کی شکل میں دوہزار سات میں متعلقہ حکام کے سامنے پیش کی گئیں۔ لیکن ان خدشات کے پیش ِنظر کہ یہ پروجیکٹ ملک کی سیاحت کو متاثر کرے گا، ان تجاویز کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

رپورٹ۔۔ عبدالستار

ادارت۰۰ کشورمصطفیٰ