1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

عالمی برادری کا مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی لانے پر اصرار

12 اپریل 2024

ایران کے اسرائیل کے خلاف ممکنہ حملے کے خدشے نے غزہ جنگ کی وجہ سے پہلے ہی کشیدگی کے شکار خطے میں تناؤ کو اور بھی بڑھا دیا ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ وہ دمشق میں اپنے سفارت خانے پر اسرائیلی حملے کا جواب دے گا۔

https://p.dw.com/p/4egd4
Syrien Damaskus | Zerstörung nach dem israelischen Luftangriff
دمشق میں واقع ایرانی قونصلیٹ پر مشتبہ اسرائیلی حملے کے بعد کا منظر تصویر: Ammar Ghali/Anadolu/picture alliance

روس، جرمنی اور برطانیہ نے مشرق وسطیٰ کے ممالک پر زور دیا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ان ممالک کی جانب سے یہ صلاح ایک ایسے موقع پر دی گئی ہے، جب اسرائیل پر ممکنہ ایرانی  حملہ کے خطرے کے پیش نظر خطے میں شدید کشیدگی کی فضا پائی جاتی ہے۔  اس دوران اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ''اپنی سلامتی کی تمام ضروریات کو پورا کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔‘‘

اس بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر جرمن ایئرلائن لفتھانزا  نے ایرانی دارالحکومت کے لیے اپنی پروازوں کی معطلی کے عرصے میں توسیع کر دی اور روس نے اپنے شہریوں کو مشرق وسطیٰ کا سفر کرنے کے خلاف خبردار کیا۔

Iran | Seyed Razi Mousavi vom IRGC
دمشق حملے میں پاسداران انقلاب کے ایک اہم کمانڈر رضی موسوی سمیت سات ایرانی فوجی افسران مارے گئے تھےتصویر: Tasnim News Agency via ZUMA Press Wire/picture alliance

ایران نے یکم اپریل کو دمشق میں اپنے سفارت خانے کے احاطے پر ہونے والے فضائی حملے کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ اس حملے میں  ایک اعلیٰ ایرانی جنرل اور چھ دیگر ایرانی فوجی افسران ہلاک ہو گئے تھے۔ اس واقعے سے  غزہ جنگ کی وجہ سے پہلے ہی تناؤ کے شکار خطے میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ اسرائیل نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بدھ کے روز کہا کہ اسرائیل کو ''سزا ملنی چاہیے اور ملےگی۔‘‘ ایرانی لیڈر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ ایرانی سرزمین پر حملے کے مترادف ہے۔

اقوام متحدہ میں تہران کے مشن نے جمعرات کو کہا کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل حملے کی مذمت کرتی اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لاتی تو ''ایران  اس بدمعاش حکومت کو ضروری سزا دینے‘‘ سے گریز کر سکتا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ میں اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن وہ دوسری جگہوں پر بھی  سکیورٹی کے حوالے سے تیاری کر رہا ہے۔

 انہوں نے اسرائیلی فضائیہ کے ایک اڈے کے دورے کے بعد کہا، ''جو بھی ہمیں نقصان پہنچائے گا، ہم ان کو نقصان پہنچائیں گے۔ ہم دفاعی اور جارحانہ دونوں طور پر ریاست اسرائیل کی تمام حفاظتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران نے واشنگٹن کو اشارہ دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے حملے کا اس طرح جواب دے گا، جس کا مقصد بڑی کشیدگی سے بچنا ہے اور وہ جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔

Iran Teheran | Ali Hosseini Khamenei
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای تصویر: Iranian Leader Press Office/Handout/AA/picture alliance

 غزہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے یہ تنازعہ  پورے مشرق وسطی میں پھیل چکا ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ گروپوں نے لبنان، یمن اور عراق سے  فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ تہران نے اپنے ان اتحادیوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل یا امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیرعبداللہیان سے کہا کہ وہ مزید کشیدگی سے بچنے کے لیے ''زیادہ سے زیادہ تحمل‘‘ پر زور دیں۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے جمعرات کو کہا کہ انہوں نے امیرعبداللہیان پر واضح کر دیا ہے کہ ایران کو مشرق وسطیٰ کو وسیع تر تنازعے میں شمولیت کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ترک، چینی اور سعودی وزرائے خارجہ سمیت اپنے دیگر ہم منصبوں کو فون کر کے مطالبہ کیا کہ وہ ''ایران پر واضح کریں کہ کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیں ہے اور تہران پر زور دینا چاہیے کہ وہ کشیدگی نہ بڑھائے۔‘‘

جمعرات کو دیر گئے ایک امریکی اہلکار نے کہا کہ امریکہ کو ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف حملے کی توقع ہے لیکن ایسا حملہ اتنا بڑا نہیں ہو گا، جو واشنگٹن کو جنگ کی طرف کھینچ سکے۔

ش ر⁄ ع ت ( روئٹرز)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار