1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ظالمانہ و توہين آميز سلوک‘، مہاجرين کے ليے زر تلافی

عاصم سلیم
14 جون 2017

آسٹريليا کے اپنے ملکی حدود سے باہر قائم حراستی مراکز ميں مہاجرين کے ساتھ ’ظالمانہ اور توہين آميز‘ سلوک ثابت ہو جانے پر کينبرا حکومت نے بطور زر تلافی متاثرين کے ليے کئی ملين ڈالر کی ادائيگی کی حامی بھر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/2ei8f
Papua-Neuguinea Flüchtlinge im Internierungslager auf der Insel Manus
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/E. Blackwell

آسٹريليا ميں انسانی حقوق کے حوالے سے بدھ چودہ جون کے روز سامنے آنے والے ايک تاريخی سمجھوتے ميں کينبرا حکومت مانوس جزيرے پر قائم اپنے ايک حراستی مرکز ميں قيد 1,905 تارکين وطن کو تقريباً 53 ملين امريکی ڈالر کی ادائيگی پر رضامند ہو گئی ہے۔ اس کيس ميں متاثرہ تارکين وطن کی نمائندگی کرنے والے ’سليٹر اينڈ گورڈن‘ کمپنی کے وکيل اينڈرُو بيکر نے کہا کہ حکومت اور حراستی مرکز کے کنٹريکٹرز کے مابين طے پانے والا سمجھوتہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کسی بھی معاملے ميں متاثرين کی انصاف تک رسائی کس قدر اہم ہے۔ بيکر نے کہا، ’’مہاجرين کی اکثريت اپنے آبائی ملکوں ميں مذہبی بنيادوں پر ظلم و ستم اور تشدد سے فرار ہو کر پناہ کے مقصد سے آسٹريليا آئی تاہم يہاں ان سے ان کے بنيادی انسانی حقوق تک چھين ليے گئے۔‘‘

اس فيصلے کو انسانی حقوق کے حوالے سے آسٹريلوی تاريخ کا سب سے بڑا ’کلاس ايکشن‘ سمجھوتہ قرار ديا جا رہا ہے۔ يہ اصطلاع ايسے کيس کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس ميں متعلقہ وکيل ايک سے زيادہ افراد يا کسی گروپ کی نمائندگی کر رہا ہو۔ کافی تاخير کے بعد مقدمے پر کارروائی دسمبر سن 2014 ميں شروع ہوئی تھی۔ سن 2012 سے مانوس جزيرے پر قائم حراستی مرکز ميں قيد سينکڑوں تارکين وطن نے يہ موقف اختيار کيا تھا کہ ذہنی و جسمانی تشدد اور توہين آميز سلوک سہنے کے ليے انہيں زر تلافی ادا کيا جائے۔ علاوہ ازيں پاپوا نيو گنی کی عدالت عظمیٰ نے گزشتہ برس تارکين وطن کی حراست کو غير آئينی قرار دے ديا تھا ليکن اس کے باوجود انہيں قيد ميں رکھا گيا۔ متاثرين نے اس کے ليے بھی زر تلافی کا مطالبہ کيا تھا۔

Karte Papua Neuguinea ENG

وکيل اينڈرُو بيکر نے بتايا کہ يہ، ان کی کمپنی ’سليٹر اينڈ گورڈن‘ کا سب سے بڑا کيس تھا، جس ميں مجموعی طور پر پچاس سماعتيں ہوئيں، دو سو سے زائد افراد کے بيانات ريکارڈ کیے گئے اور تقريباً دو لاکھ دستاويزات کا جائزہ ليا گيا۔ ان کے بقول متعلقہ حراستی مرکز ميں کام کرنے والے تقريباً ستر افراد نے بھی اس معاملے ميں گواہی دی، جن ميں ڈاکٹر، سماجی کارکن اور سکيورٹی کنٹريکٹرز بھی شامل تھے۔

آسٹريليا ميں قائم ’ہيومن رائٹس لا سينٹر‘ کے مطابق اس سمجھوتے کے نتيجے ميں کينبرا حکومت در اصل باقاعدہ عدالتی کارروائی سے بچ گئی ۔ اگر ايسا ہوتا تو کيمپ ميں غير قانونی صورتحال اور تشدد کی مزيد تفصيلات سامنے آتيں۔ ادارے سے منسلک ڈينيل ويب نے کہا کہ اگرچہ سابقہ خلاف ورزيوں کو تسليم کرنا اہم ہے تاہم حکومت کی يہ بھی ذمہ داری ہے کہ مانوس ميں بچ جانے والے تارکين وطن کو مستقبل ميں ايسے ممکنہ تشدد سے بچايا جائے۔