1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

طالبان کے نظامِ حکومت کی مدح سرائی کرنے والے شاعر

26 مئی 2024

غیر ملکی افواج کے خلاف جہاد کے جذبے سے بھرپور نظمیں اور ترانے لکھنے والے طالبان شاعروں کی ترجیحات اب تبدیل ہو چکی ہیں۔ اب ان کی نظمیں طالبان کے طرز حکومت اور طالبان رہنماؤں کی تعریف کے گرد گھوم رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4g7EK
Afghanistan, Charikar: Purpurblumen-Poesiefestival im Tap-e-Gul Ghundi Park
وسطی صوبہ پروان میں یہ تقریب ایک افغان روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے موسم بہار میں منعقد کی گئی تھی۔ روایت ہے کہ شاعر ہر سال چند ہفتوں کے لیے اگنے والے جامنی رنگ کے پھولوں کے وقت وہاں جمع ہوتے ہیں۔تصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

بگرام ایئر بیس ماضی میں امریکی فوجی کارروائیوں کا مرکز ہوتی تھی لیکن اب اس کے قریب افغانستان کے طالبان حکمران مشاعروں کا انعقاد بھی کرواتے ہیں۔ ایسے مشاعروں میں شرکت کرنے والے زیادہ تر شاعر طالبان رہنماؤں کی ہی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔

صوبہ پروان میں ایک پرجوش ہجوم کے سامنے بائیس سالہ سمیع اللہ حماس کا نعرہ لگاتے ہوئے کہنا تھا، ''یہ خالص نظام ہے، یہ ہماری جیت ہے۔ ہم سب کو متحد ہونا چاہیے، اسلامی نظام کی ایک ہی چھت کے نیچے رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کی طرف بھائی چارے کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔‘‘

سمیع اللہ حماس نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یہ وہ پیغامات ہیں، جو ہم اپنی شاعری کے ذریعے عوام تک پہنچاتے ہیں۔‘‘

طالبان حکومت اپنے اقتدار کے تیسرے سال کے اختتام کے قریب ہے اور وہ 40 ملین سے زائد نفوس پر اپنا ویژن مسلط کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

شاعری فن کی وہ واحد شکل ہے، جس پر کابل کے حکمرانوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے اور یہ بھی تب تک، جب تک یہ حکومتی موقف سے میل کھاتی ہے۔ افغانستان میں شاعری کو نہ صرف تفریح ​​اور عقیدے کے اظہار کے لیے بلکہ پروپیگنڈے کے لیے بھی ایک آلہ بنایا گیا ہے۔

افغانستان کے تجزیہ کاروں کے نیٹ ورک سے وابستہ رخسانہ شاپور کہتی ہیں کہ طالبان حکومت مشاعروں جیسی تقریبات کا انعقاد کرواتے ہوئے ''ثقافتی ہم آہنگی پیدا کرنے‘‘ کی کوشش کر رہی ہے اور اپنے ان اعلانات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد''افغانستان تمام افغانوں کے لیے‘‘ ہے۔

اپنے سابقہ ​​غیر ملکی مخالفین کی طرح طالبان حکام بھی ''دل اور دماغ‘‘ پر قبضہ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں یہاں تک کہ وہ عوامی کاموں کی تشہیر کے لیے بھی اشعار کا استعمال کر رہے ہیں۔

افغانستان میں شاعری کو نہ صرف تفریح ​​اور عقیدے کے اظہار کے لیے بلکہ پروپیگنڈے کے لیے بھی ایک آلہ بنایا گیا ہے
افغانستان میں شاعری کو نہ صرف تفریح ​​اور عقیدے کے اظہار کے لیے بلکہ پروپیگنڈے کے لیے بھی ایک آلہ بنایا گیا ہےتصویر: WAKIL KOHSAR/AFP

ایک معروف افغان شاعر محمد علیم بسمل کہتے ہیں، ''(طالبان کی) فتح میں شاعروں کا بہت بڑا کردار تھا۔‘‘ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ان کے ترانے بڑے پیمانے پر سنے جاتے تھے یہاں تک کہ جو طالبان نہیں تھے، وہ بھی سنتے تھے۔‘‘

تاہم اب شاعری میں تبدیلی آ رہی ہے۔ 43 سالہ بسمل کہتے ہیں، ''پہلے جنگ ہوا کرتی تھی، جذبات تھے لیکن اب یہ ختم ہو گیا ہے اور شاعری کا میدان بھی بدل گیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے، ''کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بہترین شاعری گھٹن کے ماحول سے آتی ہے۔‘‘

صوبہ پروان کے انفارمیشن اینڈ کلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر شمس الحق صدیقی کہتے ہیں، ''شاعر اب پرامن ماحول میں جمع ہو کر قوم کے درمیان بھائی چارے، محبت اور اتحاد کے بارے میں شعر سنا رہے ہیں۔‘‘

تاہم طالبان کے شاعروں کا یہ پیغام بھی صرف مردوں تک پہنچ رہا ہے کیوں کہ خواتین کو ایسی کسی بھی تقریب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔

وسطی صوبہ پروان میں یہ تقریب ایک افغان روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے موسم بہار میں منعقد کی گئی تھی۔ روایت ہے کہ شاعر ہر سال چند ہفتوں کے لیے اگنے والے جامنی رنگ کے پھولوں کے وقت وہاں جمع ہوتے ہیں۔

افغانستان کی ایک خاتون شاعرہ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جب میں طالبان کو اشعار پڑھتے دیکھتی ہوں تو مجھے بہت غصہ آتا ہے۔ اس خاتون شاعرہ کا کہنا تھا، ''وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن اگر ہم ایسا کرنا چاہیں تو وہ ہمیں اجازت نہیں دیتے۔ وہ یا تو ہمیں بھی شاعری سنانے اور شائع کرنے دیں یا خود بھی شاعری نہ سنائیں۔‘‘

تاہم ایسی افغان خواتین اپنی شاعری اپنے اصل نام کے بغیر واٹس ایپ جیسے گروپوں میں شائع کرتی ہیں اور یہ ان کے اپنے غم و غصے کو کم کرنے کا واحد راستہ بچا ہے۔

ا ا / ع ت (اے ایف پی)