1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان مزید لڑنا نہیں چاہتے،‘ افغان امور کے ماہر رُوٹِگ

عدنان اسحاق ہنس شپروس
19 اگست 2018

افغان طالبان نے اپنے ہلاکت خیز حملوں سے کابل حکومت کو پریشان کر رکھا ہے۔ تاہم ایسا بھی دکھائی دے رہا ہے کہ طالبان شاید لڑائی سے تھک چکے ہیں۔ افغان امور کے ماہر تھوماس رُوٹِگ کے مطابق مثبت بات چیت کے لیے یہ مناسب وقت ہے۔

https://p.dw.com/p/33OPu
Afghanistan Sicherheitspersonal
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

ڈوئچے ویلے نے افغان امور کے ماہر تھوماس رُوٹِگ سے خصوصی بات چیت کی۔ رُوٹِگ افغانستان اینالسٹس نیٹ ورک (اے اے این) کے شریک ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے جب ان سے سوال پوچھا کہ افغانستان میں اکتوبر میں پارلیمانی انتخابات ہونا ہیں جبکہ دوسری جانب طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ حملے کرتے ہوئے کابل حکومت پر دباؤ بھی ڈال رہے ہیں، ان حالات میں افغانستان میں جمہوریت کی بحالی کس حد تک ممکن ہے؟

تھوماس رُوٹِگ کے بقول افغانستان میں جمہوریت کی بحالی کا عمل گزشتہ کچھ عرصے سے تنزلی کا شکار ہے اور اس کی کچھ حد تک ذمہ داری طالبان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابی عمل کے دوران عین ممکن ہے کہ طالبان انتخابی مراکز کو نشانہ بنائیں۔

Thomas Ruttig Deutscher Afghanistan-Experte
افغان امور کے ماہر تھوماس رُوٹِگتصویر: picture-alliance/dpa

ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان کے امراء کی ایک بڑی تعداد جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی اور اسی وجہ سے جمہوری ادارے بھی اپنا کام درست انداز میں نہیں کر پاتے۔ انہوں نے کہا، ’’میرے خیال میں جمہوری ادارے غیر جمہوری افراد کے زیر اثر ہیں اور ان حالات میں جمہوریت کا پروان چڑھنا ممکن نہیں۔‘‘

افغانستان میں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں رُوٹِگ نے کہا کہ طالبان بہت زیادہ طاقت ور ہو چکے ہیں۔ وہ مسلسل شہروں پر حملے کررہے ہیں، ’’طالبان شہروں میں داخل ہوتے ہیں، کچھ دن اس پر قبضہ کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت پیش قدمی کر سکتے ہیں اور تمام تر تربیت اور سرمایہ کاری کے بعد بھی افغان دستے انہیں روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔‘‘

اس سلسلے میں انہوں نے غزنی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے دعوے کے مطابق انہوں نے خود اس شہر پر اپنا قبضہ ختم کیا تھا اور یہ طاقت کا ایک مظاہرہ تھا۔ طالبان نے کہا ہے کہ غزنی پر حملہ اس امریکی بیان کے رد عمل میں کیا گیا تھا، جس میں واشنگٹن نے کہا تھا کہ مذاکرات سے قبل امریکا افغان طالبان کو عسکری طور پر سزا دینا چاہتا ہے۔

Gefechte in Afghanistan
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. A. Danishyar

تھوماس رُوٹِگ کے مطابق یہ امریکیوں کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے لیے بھی ایک تباہ کن صورتحال ہے۔

طالبان کے ساتھ حال ہی میں قطر اور ازبکستان میں مذاکرات ہوئے اور اس بات پر بھی اتفاق ہو چکا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر امریکا اور طالبان کے نمائندوں کے مابین ایک اور ملاقات ہو گی۔ تھوماس رُوٹِگ کے مطابق اس پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔