1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات معطل

7 اپریل 2020

افغان طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا ہے کہ طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری نہیں رکھ سکتے۔ اس نئی پیش رفت کو افغان امن عمل کے لیے ایک نیا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/3aZtu
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Gul

امریکا اور طالبان کے درمیان امن ڈیل رواں برس انتیس فروری کو طے پائی تھی۔ اس ڈیل میں مزید پیش رفت طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں تسلسل خیال کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ امریکا کی طالبان کے ساتھ طے پانے والی امن ڈیل کی کامیابی کا انحصار عسکریت پسند تنظیم اور کابل کی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے درمیان رابطہ کاری اور مکالمت پر ہے۔ اس عمل میں ابتدا ہی سے رکاوٹیں پیدا ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ مشکل سے مذاکرات شروع ہوئے لیکن اب چند دنوں بعد ان میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔

فریقین یعنی طالبان اور کابل حکومت قیدیوں کی رہائی کے اہم معاملے کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ منگل سات اپریل کو طالبان نے اس مذاکراتی سلسلے سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تجزیہ کار پہلے ہی اس کا اشارہ دے چکے ہیں کہ اطراف کے قیدیوں کی رہائی کا معاملہ آسان نہیں ہے کیونکہ کئی اہم قیدیوں کی رہائی کو طے کیا جانا ہے۔ 

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے ٹویٹ کیا ہے کہ ان کی ٹیکنیکل ٹیم کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری نہیں رکھ سکتی۔ شاہین نے مذاکرات کو لاحاصل بھی قرار دیا ہے۔ طالبان کے ترجمان کی جانب سے یہ ٹویٹ پیر اور منگل کی نصف شب کیا گیا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کابل حکومت کی مذاکراتی ٹیم قیدیوں کی رہائی کو مختلف حیلوں اور بہانوں سے مؤخر کرتی جا رہی ہے۔

طالبان کے مذاکرات سے علیحدگی کے فیصلے پر فی الحال کابل حکومت کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

طالبان کی جانب سے کابل حکومت پر 'تاخیری حربے' استعمال کرنے کے الزام کے حوالے سے بھی فی الحال پوری وضاحت سامنے نہیں آئی ہے کہ ان کی نوعیت کس طرح کی ہے۔ یہ بھی واضح نہیں کہ کابل حکومت کن قیدیوں کو چھوڑنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے اور طالبان کونسے قیدیوں کی فوری رہائی کی متمنی ہیں۔

یہ مذاکرات ابھی گزشتہ ہفتہ ہی شروع ہوئے تھے۔ ان مذاکرات کو اصل میں دس مارچ کو شروع ہونا تھا لیکن کابل میں سیاسی عدم استحکام اور مرکزی صدارتی امیدواروں کے درمیان شدید اختلافات رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اشرف غنی نے امریکا طالبان ڈیل کے فوری بعد عسکریت پسند تنظیم کے قیدیوں کی رہائی پر ایک علیحدہ موقف اپنایا تھا۔

قیدیوں کی رہائی کے مذاکرات تاخیر سے شروع ہونے میں ایک اہم وجہ افغانستان میں اقتدار کی شدید رسہ کشی خیال کی جاتی ہے۔ صدر اشرف غنی اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان اختلافات صدارتی الیکشن کے نتائج عام ہونے کے بعد سے پیدا ہیں۔ عبداللہ عبداللہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

  ع ح / ع ت