1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صیہونیت کیا ہے؟ اسرائیلی انتخابات میں نئی بحث

امجد علی23 فروری 2015

صیہونیت کی جڑیں اُنیس ویں صدی میں ہیں۔ صیہونیت کیا ہے؟ یہ نظریاتی سوال غیر متوقع طور پر اسرائیل میں جاری انتخابی مہم کے دوران اہمیت اختیار کر گیا ہے، جہاں لبرل اپوزیشن نے خود کو ’صیہونی یونین‘ کا ایک نیا نام دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Eg79
اسرائیلی پارلیمان کا ایک منظر
اسرائیلی پارلیمان کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/dpa

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت کے ووٹ توڑنے کے لیے قدرے لبرل یا آزاد خیال تصور کی جانے والی اپوزیشن نے اپنے لیے ’زایونسٹ یونین‘ کا نیا نام اختیار کر لیا ہے، جس کے بعد اُس مسئلے سے متعلق بحث نئے سرے سے شروع ہو گئی ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ 1948ء میں یہودی ریاست کے قیام کے اعلان اور اُسے تسلیم کیے جانے کی صورت میں حل ہو چکا ہے۔

اسحاق ہیرسوگ کی لیبر پارٹی نے، جسے سابق خاتون اپوزیشن لیڈر زیپی لیونی کی قیادت میں سرگرم ایک چھوٹے گروپ کی بھی حمایت حاصل ہے، یہ نیا نام گزشتہ سال دسمبر کے شروع میں اختیار کیا تھا اور تب سے رائے عامہ کے جائزوں میں لیبر پارٹی کی حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اب رائے عامہ کے جائزوں میں حمایت کے اعتبار سے لیبر پارٹی اور نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ بلاک تقریباً برابر جا رہی ہیں۔

لیبر پارٹی کو سابق خاتون اپوزیشن لیڈر زیپی لیونی کی قیادت میں سرگرم ایک چھوٹے گروپ کی بھی حمایت حاصل ہے
لیبر پارٹی کو سابق خاتون اپوزیشن لیڈر زیپی لیونی کی قیادت میں سرگرم ایک چھوٹے گروپ کی بھی حمایت حاصل ہےتصویر: Gali Tibboni/AFP/Getty Images

اسرائیل میں عام انتخابات سترہ مارچ کو منعقد ہوں گے۔ انتخابی مہم کے دوران اب یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ صیہونیت آخر ہے کیا۔ بائیں بازو کی جماعتوں کے خیال میں حقیقی صیہونیت سے مراد ہے، ملک کے اندر امن اور مساوات قائم کرنا، جس میں فلسطینیوں کے ساتھ امن سے رہنا اور ضرورت پڑنے پر اپنے زیرِ قبضہ علاقوں سے دستبردار ہونا بھی شامل ہے۔

نیتن یاہو نے اپنے حریفوں کو ’صیہونیت مخالف یونین‘ کہہ کر اُن کا مذاق اڑایا ہے۔ اُن کی جماعت لیکوڈ کے حامی ’صیہونیت‘ کی اصطلاح کو ایک ایسے مضبوط اسرائیل سے مراد لیتے ہیں، جو اپنے دشمنوں کے مقابلے پر ڈٹ کر کھڑا رہتا ہے اور خاص طور پر مغربی کنارے کے یہودی آبادکاروں کا ساتھ دیتا ہے۔ نظریاتی اعتبار سے یہودی آبادکار خود کو وہ ’حقیقی صیہونی‘ گردانتے ہیں، جن کا گویا یہ فرض ہے کہ وہ نتائج کی پروا کیے بغیر پوری مقدس سرزمین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کریں۔

لیکوڈ کے ایک سینئر رکنِ پارلیمان ڈینی ڈینن کے خیال میں اپوزیشن جماعتیں فلسطینیوں کے لیے حد سے زیادہ ہمدردی دکھاتے ہوئے اسرائیل کو کمزور کر رہی ہیں۔ ڈینن بائیں بازو کے کچھ عناصر پر الزام عائد کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فوج میں شمولیت سے انکار کے واقعات کو سراہا ہے یا یہ کہ وہ عربوں کے اس موقف کی تائید کرتے ہیں کہ اسرائیل کا قیام ایک تباہ کن اقدام تھا۔

آسٹریا کے صحافی ڈاکٹر تھیوڈور ہیرزل نے 1896ء میں اپنے منشور ’یہودی ریاست‘ کے ذریعے اس تصور کو مقبول بنایا
آسٹریا کے صحافی ڈاکٹر تھیوڈور ہیرزل نے 1896ء میں اپنے منشور ’یہودی ریاست‘ کے ذریعے اس تصور کو مقبول بنایاتصویر: dpa

’صیہون‘ یعنی یروشلم یا مقدس سرزمین کا جدید تصور اُنیس ویں صدی میں سامنے آیا تھا، جب سامی دشمنی کا سامنا کرنے والے یورپی یہودی اپنے صدیوں پہلے کے آباء کی سرزمین پر ایک یہودی ریاست کے قیام کے خواب دیکھنے لگے تھے۔

آسٹریا کے صحافی تھیوڈور ہیرزل نے 1896ء میں اپنے منشور ’یہودی ریاست‘ کے ذریعے اس تصور کو مقبول بنایا اور اسی منشور پر بین الاقوامی صیہونی تحریک کی بنیادیں اُستوار ہوئیں۔ ایک الگ یہودی ریاست کا خواب 1948ء میں شرمندہٴ تعبیر ہوا اور یہ ملک نازی سوشلسٹوں کے ہاتھوں لاکھوں یہودیوں کے قتلِ عام کے بعد پوری دُنیا کے یہودیوں کی جائے پناہ بنا۔

جہاں کچھ حلقوں کے خیال میں اس ریاست کے قیام کے ساتھ ہی صیہونیت کی تحریک نے بھی اپنا مقصد پا لیا، وہاں دیگر حلقے یہ موقف رکھتے ہیں کہ اب صیہونیت کی اصطلاح حب الوطنی کے مترادف ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور واضح طور پر ایسا نظر آ رہا ہے کہ فلسطینیوں کی آبادی اسرائیلیوں کی آبادی سے بڑھ جائے گی، جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل کی ’یہودی ریاست‘ کی حیثیت بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گی اور یہ ’صیہونیت‘ کا خاتمہ ہو گا۔

جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آتی جا رہی ہے، ’صیہونیت‘ کے اصل معانی کے حوالے سے لیبر پارٹی اور اُس کے حریفوں کے مابین بحث بھی زور پکڑتی جا رہی ہے۔

اسی دوران اسرائیل کے اندر بسنے والے عرب شہری بھی، جو ماضی میں سیاسی اعتبار سے زیادہ تر منقسم رہے ہیں، اس بار متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور رائے عامہ کے چند ایک جائزوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ اسرائیل کی تیسری بڑی سیاسی قوت بن کر سامنے آ سکتے ہیں۔ اسرائیل کی اَسّی لاکھ سے زیادہ کی آبادی کا بیس فیصد عربوں پر مشتمل ہے اور فلسطینیوں ہی کی طرح وہ بھی ’صیہونیت‘ کو زمین چھیننے، امتیازی سلوک روا رکھنے اور فوجی قبضہ برقرار رکھنے کے ہم معنی قرار دیتے ہیں۔