1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صحافت کا عالمی دن، پاکستان میں صورتحال بدستور تشویش ناک

3 مئی 2012

ہرسال تین مئی کو دنیا بھرمیں صحافت کی آزادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد آزادی صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح آج پاکستان میں اس دن کی مناسبت سے تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/14oMC
تصویر: picture-alliance/dpa

متعدد بین الاقوامی صحافتی تنظیموں کی طرف سے صحافیوں کے لیے خطرناک قرار دیے جانے والے ملک پاکستان میں اب بھی صحافتی آزادی خطرے سے دوچار ہے۔ خاص طور پر کشیدگی والے علاقوں میں صحافیوں کے لیے آزادانہ طور پر غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، قبائلی علاقوں اور کراچی کےشورش زدہ علاقوں میں صحافیوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ایسے کئی علاقوں سے صحافیوں کی نقل مکانی کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے میڈیا کے امور پر نظر رکھنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساؤتھ ایشیا فری میڈیا ایسوسی ایشن (سیفما) کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے بتایا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو انتہا پسندانہ نظریات اور عدم برداشت کے رویوں سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ ’’بعض ریاستی ادارے، دہشت گرد تنظیمیں اور مسلح گروہ اپنی مرضی کی خبروں کی اشاعت پر اصرار کر رہے ہیں۔ کچھ علاقے صحافیوں کے لیے نو گو ایریاز بن کر رہ گئے ہیں۔ چین کے ماڈل کو اپناتے ہوئے ملک میں بہت سی ویب سائٹس بند کر دی گئی ہیں، صحافت پر پابندیاں لگانے کے لیے پیمرا نئے قوانین لے کر آ رہا ہے، سلیم شہزاد کے نہ تو قاتل مل سکے اور نہ ہی اس قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کیے جانے والے کمیشن کی سفارشات پر ابھی تک کوئی عمل ہو سکا ہے‘‘۔

Logo der Organisation Freedom House
فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے جانے والے صحافیوں کو وہی مراعات دی جانی چاہیں جو مارے جانے والے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو ملتی ہیں، پرویز شوکت

امتیاز عالم کے مطابق پاکستان میں صحافت کی آزادی کا مطلب دراصل اخباری مالکان کی آزادی تصور کیا جاتا ہے، جو کہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے مطابق صحافتی اداروں میں ادارتی عملے کا کنٹرول اب مارکیٹنگ والوں کے پاس چلا گیا ہے۔ اشتہار خبروں کی صورت میں چھپ رہے ہیں اور قبضہ گروپس اور پراپرٹی والے لوگ سیاسی مفادات کے لیے اپنے میڈیا گروپ لے کر آرہے ہیں۔ پاکستان میں صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ، اغوا، دھمکیوں، غیر قانونی برطرفیوں اور تنخواہوں کے بروقت نہ ملنے کے علاوہ سرکاری، سیاسی اور مذہبی گروہوں کے نا جا ئز ہتھکنڈوں کا سامنا رہتا ہے۔آج تک کسی مقتول پاکستانی صحافی کے قاتلوں کو سزا نہیں ملی ہے۔

سیفما کے سیکرٹری جنرل کے مطابق پاکستانی میڈیا کونئے خیالات کے فقدان کا سامنا ہے، وہ تخلیقی انداز میں نئی باتیں پیش کرنے کی بجائے تحقیق کیے بغیر اوٹ پٹناگ لوگوں کو سنا رہا ہے اور صحافتی اخلاقیات کو بھی پیش نظر نہیں رکھا جا رہا ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں صحافتی اداروں کے زیادہ تر مالکان بلیک میلر ہیں۔ پاکستان کی نااہل حکومت ان سے ڈرتی ہے۔ انہیں پیسے تو دے دیتی ہے لیکن انہیں اس بات پر مجبور نہیں کرتی کہ وہ اپنے کارکنوں کے تنخواہیں وقت پر ادا کریں۔ یاد رہے پاکستان کے بیشتر صحافتی اداروں میں صحافیوں کو تنخواہیں نہ ملنے، یا وقت پر نہ ملنے یا پھرکم تنخواہ ملنے کی شکایات کا سامنا ہے۔

اس صورتحال میں پاکستان میں صحافتی ٹریڈ یونین بہت کمزور ہو چکی ہے۔ بیشتر صحافتی ادروں میں ٹریڈ یونینز نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب زیادہ تر صحافیوں کوکنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے، کئی اداروں میں تو صحافیوں کو تقرر نامہ تک نہیں ملتا۔ صحافیوں کے لیے کم از کم ویجز کا تعین کرنے والے کمیشن کی رپورٹ پر کئی سال گزرنے کے باوجود عمل نہیں ہو سکا۔

Syed Saleem Shahzad
سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کی سفارشات پر ابھی تک کوئی عمل ہو سکا ہےتصویر: dapd

ایک سوال کے جواب میں امتیاز عالم نے بتایا کہ پاکستانی ٹی وی چینلوں پر معاشی امور پر اچھے پروگرام آ رہے ہیں، خبر نامے بھی بہتر ہیں لیکن ٹاک شوز غیر میعاری ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ صحافتی امور پر نگاہ رکھنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے حال ہی میں صحافت کی آزادی کے حوالے سے جو پریس فریڈم انڈیکس جاری کیا ہے اس میں دنیا کے ایک سو اناسی ملکوں میں پاکستان کانمبر ایک سو اکاون واں ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے فیڈرل یونین آف جرنلٹس کے صدر پرویز شوکت کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافی بڑی حد تک آزادی سے لکھ تو رہے ہیں لیکن ان کی اقتصادی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے صرف تین بڑے میڈیا گروپوں کے سوا کسی بھی ادارے میں تنخواہیں پوری اور وقت پرنہیں مل رہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے ٹی وی چینل میں بھی پچھلے کئی مہینوں سے تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جارہیں۔

ایک سوال کے جواب میں پرویز شوکت نے بتایاکہ بڑے پیمانے پر صحافتی اداروں میں چھانٹیاں کی جا رہی ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں صحافتی اداروں کو مشکلات سے نکالنے کے لیے تیس کروڑ روپے دیے ہیں لیکن یہ مالکان کارکنوں کے واجبات ادا نہیں کر رہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک طرف ان چھانٹیوں کے نتیجے میں صحافی بے روزگار ہو رہے ہیں دوسری طرف حکومت نے نئے ٹی وی چینلوں کے لائسنسوں کے اجرا پر غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔

پرویز شوکت کے مطابق حکومت زبانی وعدے تو کر رہی ہے۔ لیکن وہ صحافیوں کو اسلحہ کے لائسنس اور حفاظتی جیکٹس دینے، سلیم شہزاد کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے اور صحافیانہ امور کے لیے محتسب مقرر کرنے سمیت اپنے کئی وعدے پورے نہیں کر سکی۔ ان کے بقول ٹی وی مالکان صحافیوں کوکیمرے دے کر بغیر حفاظتی انتظامات کے انہیں خطرناک علاقوں میں بھیج دیتے ہیں کہ بچ جائے تو اس کی قسمت، ہلاک ہو جائے تو اس کے لواحقین جانیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کراچی میں جنگی ماحول کے حامل علاقے لیاری میں گولیوں کی زد میں آ کر دو فوٹو گرافر زخمی ہو چکے ہیں۔

Pakistan Wahlen Zeitungsstand in Rawalpindi
پاکستان میں صحافت کی آزادی کا مطلب دراصل اخباری مالکان کی آزادی تصور کیا جاتا ہے، امتیاز عالمتصویر: AP

پرویز شوکت کا کہنا ہے فرائض کی ادائیگی کے دوران مارے جانے والے صحافیوں کو وہی مراعات دی جانی چاہیں جو مارے جانے والے فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے لواحقین کو ملتی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ صحافیوں کو بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے۔

رپورٹ:تنویر شہزاد،لاہور

ادارت: عدنان اسحاق