شینگن معاہدہ: ڈنمارک میں دوبارہ بارڈر کنٹرول کی تیاریاں
30 جون 2015کوپن ہیگن سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات نئی ڈینش حکومت میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے والے کرسٹیان ژینسن نے آج منگل تیس جون کے روز برلن میں اپنے جرمن ہم منصب فرانک والٹر شٹائن مائر کے ساتھ ملاقات کے بعد ڈنمارک کے ایک خبر رساں ادارے کو بتائی۔
کرسٹیان ژینسن نے کہا، ’’ہم ایسی تجاویز پیش کریں گے، جن پر شینگن معاہدے کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے عمل درآمد کیا جا سکے اور اس سلسلے میں نہ صرف برسلز میں یورپی کمیشن سے بات چیت کی جائے گی بلکہ ڈنمارک کے ہمسایہ ملکوں سے بھی مذاکرات کیے جائیں گے۔‘‘
ڈنمارک میں نئی ملکی حکومت کے ان ارادوں کی کوپن ہیگن میں وزارت خارجہ نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ اے ایف پی کے مطابق کہا گیا ہے کہ ڈنمارک کے اس نئے اقدام کی وجہ اسمگلنگ کی روک تھام اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کا سدباب ہے۔
ڈینش وزارت خارجہ کے ترجمان لارس پیٹر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس نئے اقدام کے تحت ڈنمارک کی بین الاقوامی سرحدوں پر ماضی کی طرح کوئی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور نہ ہی کوئی چیک پوسٹیں قائم کی جائیں گی، تاہم سرحدوں کے قریبی علاقوں میں دوبارہ نگرانی کی جانے لگے گی۔‘‘
کوپن ہیگن میں دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی نئی ملکی حکومت ابھی اتوار اٹھائیس جون کے روز اقتدار میں آئی تھی۔ اقتدار میں آنے سے پہلے اس کی تارکین وطن کی مخالفت کرنے والی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی DPP کے ساتھ مخلوط حکومت کے قیام سے متعلق بات چیت ناکام ہو گئی تھی۔ ڈینش پیپلز پارٹی اسی مہینے ہونے والے عام الیکشن میں دائیں بازو کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی۔
نئی ڈینش حکومت ایک اقلیتی حکومت ہے اور اسے پارلیمان میں قانون سازی کے لیے پی ڈی ڈی کی تائید درکار ہو گی، جو ابھی تک اس بات پر مصر ہے کہ ڈنمارک کو اسمگلنگ اور غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے لیے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی کا نظام دوبارہ متعارف کرانا چاہیے۔
ڈنمارک یورپ میں پاسپورٹ کے بغیر آمد و رفت کی ضمانت دینے والے آزاد سرحدی معاہدے شینگن کا رکن ملک ہے۔ اس معاہدے میں 25 ملک شامل ہیں۔ آزادانہ آمد و رفت کے اس یورپی معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی غیر قانونی تارک وطن کسی ایک شینگن ملک میں داخل ہو جائے تو اصولی طور پر وہ بلا روک ٹوک باقی دو درجن ملکوں میں بھی جا سکتا ہے۔
اسی پس منظر میں فرانس کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت نے ابھی پیر انتیس جون کے روز ہی اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ فرانس نے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے اٹلی کے ساتھ اپنی سرحد پر نگرانی کا جو نظام دوبارہ شروع کیا ہے، وہ قانون کے مطابق ہے اور شینگن کے یورپی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔