1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکمل

23 مئی 2024

جرمنی آج اپنے آئین، شہری حقوق کے ضامن اس بنیادی قانون کے نافذ ہونے اور 75 برس قبل جدید وفاقی جمہوریہ کے قیام کی خوشی منا رہا ہے۔ اس تناظر میں آج دارالحکومت برلن میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4gBsq
جرمن آئین کی تیاری کے وقت لی گئی ایک تصویر
جرمن آئین کی تیاری کے وقت لی گئی ایک تصویرتصویر: Erna Wagner-Hehmke/Haus der Geschichte/dpa/picture alliance

بنیادی قانون 23 مئی 1949 کو نافذ ہوا، جو کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاسیس کی تاریخ بھی ہے۔ سابق مشرقی جرمنی میں پرامن انقلاب کی 35 ویں سالگرہ بھی آج بروز جمعرات ہی منائی جا رہی ہے۔

سن 1990ء میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد اس قانون کی عارضی حیثیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی اور یہ پورے ملک میں نافذ ہو گیا کیونکہ یہ قانون مغربی جرمنی میں تقریباً پچاس سال تک مختلف آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہو چکا تھا۔ اس دوران بنیادی قانون اعلیٰ حیثیت حاصل کر چکا تھا اور عوام میں اس کی شناخت اور قبولیت بھی بڑھ چکی تھی۔

سن 2014ء میں کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق نوے فیصد جرمن عوام نے کہا کہ وہ ''بہت بڑی حد تک‘‘ اس قانون پر اور ملک کی آئینی عدالت پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں جرمنی میں شہری آزادیوں کے محافظ سمجھتے ہیں۔

بیرون ملک بھی بنیادی جرمن قانون کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ قانونی امور کے ماہر امریکی پروفیسر پیٹر ای کوئنٹ کہتے ہیں، ''دوسری عالمی جنگ کے بعد کی جمہوری داستانوں میں سے یہ کامیابی کی سب سے شاندار کہانی ہے۔‘‘ اسی قانون کو نظروں میں رکھتے ہوئے پرتگال، اسپین اور ایسٹونیا کے علاوہ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے کچھ ممالک نے بھی اپنے اپنے آئین تیار کیے۔

شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکمل
شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکملتصویر: Joko/Bildagentur-online/picture alliance

جرمن آئین کے 75 برس مکمل ہونے پر آج صدر فرانک والٹر شٹائن مائر ایک خصوصی تقریر بھی کریں گے۔ جرمن صدر نے اپنے جاری کردہ ایک پیغام میں لکھا ہے، ''یہ بنیادی قانون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آزادی، جمہوریت اور انصاف ہماری ریاست میں بقائے باہمی کا تعین کرتے ہیں۔‘‘

جرمن آئین میں لفظ ’نسل‘ کے لیے جگہ ہے يا نہیں؟

وفاقی جرمن صدر کے خیال میں گزشتہ 75 برسوں کے دوران یہ آئین مستحکم اور قابل عمل ثابت ہوا ہے اور اس کے ذریعے ہی متعدد بحرانوں اور  مسائل پر قابو پانا ممکن ہوا۔

آج جرمن دارالحکومت برلن میں ہونے والی تقریب میں چانسلر اولاف شولس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ حکومتی شخصیات بھی شرکت کریں گی۔ اس تقریب سے پہلے برلن کے سینٹ میری چرچ میں مذہبی رہنماؤں کے ہمراہ ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔

آج جمعرات کی سرکاری تقریب کے بعد جمعے سے اتوار تک برلن میں ڈیموکریسی فیسٹیول کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ عوام بھی اس جشن میں شریک ہو سکیں۔ ہفتے کے روز جرمنی کے سابق دارالحکومت بون میں واقع صدارتی رہائش گاہ کو بھی عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

جرمن آئين کی تشکيل کی کہانی

دوسری عالمی جنگ آٹھ مئی 1945ء کوختم ہوئی تھی۔ اس کے دوسرے روز  ہی جرمنوں کو ريڈيو پر يہ خبر سننے کو ملی تھی، ''ہم دستخط کنندہ، جو جرمن ہائی کمان کے نام پر اقدام کر رہے ہيں، اپنی تمام بری، فضائی اور بحری افواج کے غير مشروط طور پر ہتھيار ڈالنے کا اعلان کرتے ہيں۔‘‘

فاتح اتحادی افواج  اس بات کی روک تھام کرنا چاہتی تھيں کہ جرمنی پھر سے دنیا کے لیے خطرہ بنے۔ انہوں نے جرمنی کو چار حصوں ميں تقسيم کيا، جن پر چاروں بڑی فاتح طاقتوں کا کنٹرول تھا۔ امريکہ، برطانيہ اور فرانس نے مغربی زون کا کنٹرول سنبھالا اور مشرقی زون سوويت يونين کے حصے ميں آ يا۔

مغربی طاقتوں نے اپنے زون کو مشترکہ طور پر زير انتظام لانے کا فيصلہ کيا اور انہوں نے جرمن سياستدانوں کو ايک جمہوری آئين کی تياری کا کام سونپا۔

شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکمل
شہری آزادیوں اور حقوق کے ضامن جرمن آئین کے 75 برس مکملتصویر: Erna Wagner-Hehmke/Haus der Geschichte/dpa/picture alliance

اس آئين ميں اس بات کا خاص طور پر خيال رکھا گيا کہ سوويت يونين کے زير قبضہ چوتھے زون کے لیے دروازے کھلے رکھے جائیں۔ اس لیے تمام بڑی سياسی جماعتيں اس پر متفق تھيں کہ مجوزہ رياستی تشکيل عبوری نوعيت کی ہونا چاہیے۔ پارليمنٹ کے اجلاس کے لیے بون شہر کا انتخاب کيا گيا۔ برطانوی زون ميں واقع اس شہر تک، امريکی اور فرانسيسی زون سے بھی با آسانی پہنچا جا سکتا تھا۔

کونراڈ آڈیناؤر کی صدارت ميں مغربی جرمنی کے اراکين پارليمنٹ نے ايک بنیادی قانون تيار کيا، جسے عارضی طور پر آئين کا کام دينا تھا ليکن اسے ايک حتمی آئين نہيں بننا تھا۔ اس ميں آزادی، انسانی حقوق اور جمہوريت کے تمام اہم استونوں کو شامل کیا گیا۔

بعض اراکين پارليمنٹ کو سمجھوتے بھی کرنا پڑے۔ مثال کے طور پر ان کو اس بارے ميں پس و پيش کا سامنا تھا کہ عورتوں اور مردوں کو يکساں حقوق دیے جائيں ليکن انہيں اس پر رضامند ہونا پڑا۔ تب صوبائی اسمبليوں اور مغربی فوجی گورنروں کی منظوری کے بعد 23 مئی 1949ء کے دن اس آئين کے نفاذ کا اعلان کيا گيا۔

ا ا / م م (ڈی پی اے، اے ایف پی)