شکایتی سیل نا کافی قرار
26 جنوری 2022واضح رہے کہ اس میں سیل، جس کا پیر کو وزارت وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے افتتاح کیا تھا، کوئی بھی شہری تحریری طور پرای میل، یا ٹیلی فون کال پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے شکایت درج کروا سکتا ہے جس کی چھان بین کے بعد اس درخواست کو متعلقہ اداروں کے حوالے کیا جائے گا اور اس کی پیش رفت پر بھی نظر رکھی جائے گی۔
امیدیں وابستہ نہیں
تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح کے شکایتی سیل یا کمیشن پہلے بھی بنے ہیں لیکن ان کی کوئی خاص کارکردگی نہیں رہی اور یہ کہ وہ اس سے بھی کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ایک اہم مسئلہ جبری طور پر گمشدہ کیا جانا ہے اور انہیں نہیں لگتا کہ یہ شکایتی سیل اس حوالے سے کوئی کام کر سکے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گزشتہ برس جولائی میں میری وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ 15 دن میں تمام لوگوں کو رہا کر دیا جائے گا اور گمشدہ افراد کا پتہ لگا لیا جائے گا۔ ہم نے اٹھائیس سو تیس افراد کی لسٹ دی تھی جس میں سے 70 کا پتہ چلا ہے کہ وہ مختلف حراستی مراکز میں ہیں جبکہ 400 قریب ایسے افراد جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر مقدمات چل رہے ہیں یا وہ مختلف جیلوں میں ہیں یا کچھ رہا بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اب بھی دو ہزار سے زیادہ ایسے افراد ہیں جن کا کوئی اتا پتا نہیں۔‘‘
جبری گمشدگیوں پر بل مسترد، کئی حلقوں کا افسوس
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت ہو سکے گی۔ ان کے بقول،''جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد کے حوالے سے کمیشن بھی تشکیل دیا گیا ہوا ہے اس کی کوئی خاص کارکردگی نہیں ہے اور اگر کسی کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ حراستی مراکز میں ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ حل ہو گیا ہے۔‘‘
صرف خانہ پوری ہے
بلوچستان میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے افراد کے حوالے سے کام کرنے والے ماما قدیر کا کہنا ہے کہ انہیں اس شکایت سیل سے کوئی امید نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''عدالتیں ایسے سیلوں کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ کمیشن پہلے ہی موجود ہے جس کی سربراہی ایک ریٹائرڈ جج کر رہے ہیں۔ اس کمیشن نے آج تک گمشدہ افراد کے حوالے سے خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی تو یہ شکایتی سیل کیا کرے گا۔‘‘
ماما قدیر کے بقول یہ صرف حکومت کی خانہ پوری ہے۔ ''جو بین الاقوامی تنظیموں اور بین الاقوامی برادری کو دکھانے کے لیے ہے لیکن حکومت گمشدہ افراد کو ڈھونڈنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔‘‘پاکستان جبری گمشدگیوں کو جرم قرار دے، ایمنسٹی کا مطالبہ
ریاست کو پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے پاکستان میں جبری طور پر گمشدہ کیے گئے افراد، اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانا والا سلوک اور توہین مذہب اور توہین رسالت پر لوگوں کو قتل کیا جانا انسانی حقوق کی سنگیں خلاف ورزیاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے ریاستی پالیسی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''انسانی حقوق کے حوالے سے شکایتی سیل بنانے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس حوالے سے ریاست کی پالیسی تبدیل ہونی چاہیے۔ ماضی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی اس حوالے سے کوشش کی لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا بالکل اسی طرح اس شکایتی سیل کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک ریاست کی اپنی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔‘‘
گمشدہ افراد کا ’ریکارڈ مرتب کرنے والا‘ خود لاپتہ
توہین مذہب اور توہین رسالت
محمد اکرم بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ توہین مذہب کے قانون کو بھی کچھ عناصر غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں جس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں،''اس شکایت سیل میں کوئی ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ اگر کسی علاقے سے خبر آئے کہ کسی پرتوہین رسالت یا توہین مذہب کا الزام لگا ہے اور اس ملزم کے گھر کے باہر لوگ جمع ہو رہے ہیں، تو اس شکایتی سیل کے پاس اختیار ہونا چاہیے کہ وہاں فوری طور پر پولیس بھیجے اور ملزم کو محفوظ کرے اور اگر اس نے واقعی کوئی جرم کیا ہے تو قانون کے مطابق اس کو سزا دی جائے۔‘‘
محمد اکرم کے بقول شکایتی سیل اس وقت مؤثر ہو سکتا ہے جب اس میں ایسا میکنزم ہو کہ وہ فوری طور پر پولیس بھیج کر اس بات کو یقینی بنائے کہ مسجدوں اور لوڈ اسپیکرز کا غیر قانونی طور پر استعمال نہیں ہو رہا ہے لوگوں کو ا شتعال نہیں دلایا جا رہا ہے۔عدالتوں کے باہر جلسے جلوس کر کے عدالتوں پر دباؤ نہیں ڈالا جا رہا ہے۔
پاکستان کو سی پی سی لسٹ سے نا نکالا جائے، امریکی کمیشن
وزارتوں میں رابطے کا فقدان
اس شکایتی سیل پر تنقید ناصرف انسانی حقوق کے کارکن اور سیاستدانوں کی طرف سے ہو رہی ہے بلکہ پی ٹی آئی کے کچھ اراکین بھی اس کو صرف ایک رسمی چیز کہتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وانکوانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میرے خیال میں یہ صرف ایک رسمی سی بات ہے کیونکہ اگر وزارت انسانی حقوق مذہبی امور کی وزارت سے توہین رسالت یا توہین مذہب کے واقعات کے حوالے سے کوئی جواب طلب کرتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کون ہوتے ہم سے جواب طلب کرنے والے۔ بالکل اسی طرح انسانی حقوق کی وزارت کو وزارت داخلہ پر بھی کوئی اختیار نہیں ہے جب تک ان تینوں وزارتوں کے درمیان رابطہ نہیں ہو گا اور اس شکایتی سیل کو انتہائی طاقتور نہیں بنایا جائے گا اس طرح کے اقدامات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
توہین مذہب و رسالت کے مقدمات کا ریکارڈ اندراج
ان کا مزید کہنا تھا،''سپریم کورٹ نے آٹھ سال پہلے یہ کہا تھا کہ اقلیتیں مظلوم طبقات ہیں۔ لیکن حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں کروایا۔ تین سال پہلے اقلیتوں کے حوالے سے کمیشن بنا تھا اس کمیشن نے بھی کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھائی۔ تو ماضی میں اس طرح کے کمیشن اور شکایتی سیلوں سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
عبدالستار/ اسلام آباد