1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتترکی

شمالی شام اور عراق کے بعض علاقوں پر ترکی کے فضائی حملے

21 نومبر 2022

جنگ کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ ترکی نے شمالی شام اور عراق میں کرد چوکیوں اور شام کے فوجی ٹھکانوں کو اپنے فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ اس میں دو درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

https://p.dw.com/p/4JoQp
Türkei Turkish Air Force Kampfjet
تصویر: Eren Bozkurt/AA/picture alliance

امریکی حمایت یافتہ کرد فورسز اور جنگ مانیٹرنگ کرنے والے ایک ادارے نے بتایا کہ ہفتے کے اواخر میں ترکی  کی فضائیہ نے شمالی شام اور عراق کے متعدد قصبوں کو نشانہ بنایا۔

شامی سرحدی چوکیوں پر ترکی کے فضائی حملے، 17 افراد ہلاک

'سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کی اطلاعات کے مطابق کوبانی اور حلب کے دیہی علاقوں میں کردوں کے زیر قیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے زیر کنٹرول علاقوں پر تقریباً 25 فضائی حملے کیے گئے۔

ترکی نے عراق میں ہلاکت خیز گولہ باری کے الزامات کو مسترد کر دیا

حملوں کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟

برطانیہ میں مقیم 'سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق اس حملے میں شامی فوج کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور فضائی حملوں میں سیریئن ڈیموکریٹک فورسز سمیت شامی فوج کے دستوں کے کم از کم 31 افراد ہلاک ہوئے۔

عراق میں ترک فوجی کارروائی، انچاس کرد جنگجو ہلاک

جنگ کی نگرانی کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں کم از کم 40 افراد زخمی یا پھر لاپتہ ہو گئے ہیں۔ زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہے۔

شامی وزارت دفاع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شمالی حلب کے دیہی علاقوں اور صوبہ حسقہ میں ''متعدد'' شامی فوجی ہلاک ہو گئے۔ اس سے قبل شام کے سرکاری میڈیا نے یہ اطلاع دی تھی  کہ حملوں میں اس کے تین فوجی مارے گئے۔

ادھر عراق میں کرد حکام نے بتایا ہے کہ 25 فضائی حملوں میں عسکریت پسند گروپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے وابستہ کم از کم 32 جنگجو مارے گئے۔

اس کے بعد ترکی کی وزارت دفاع نے ایک بیان جاری کر کے بتایا کہ اس کے فضائی حملوں میں ان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا، جہاں سے عسکریت پسند ترکی پر حملے کرتے ہیں۔

Syrien türkischer Luftangriff in Derik
جنگ کی نگرانی کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں کم از کم 40 افراد زخمی یا پھر لاپتہ ہو گئے ہیں، زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک ہےتصویر: North Press Agency via REUTERS

استنبول بم دھماکے کا رد عمل، ترکی

گزشتہ ہفتے ترکی کے شہر استنبول کے وسط میں ایک ہلاکت خیز بم دھماکہ ہوا تھا اور انقرہ نے اس کا الزام عسکریت پسند ممنوعہ تنظیم کردستان ورکرز پارٹی پر عائد کیا تھا۔ اسی کے چند روز بعد ترکی نے یہ فضائی حملے کیے۔ حالانکہ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے اس دھماکے میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔

ترک وزارت دفاع نے اتوار کی صبح اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ''اب حساب کتاب کی گھڑی آن پہنچی ہے۔'' اس ٹویٹ کے ساتھ ہی رات کے آپریشن کے لیے پرواز کرنے والے طیارے کی تصویر لگائی گئی ہے، تاہم جگہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

وزیر دفاع حلوسی آکار نے مزید کوئی تفصیلات بتائے ہوئے بغیر بس اتنا دعویٰ کیا کہ حملوں نے ''دہشت گرد تنظیم کے نام نہاد ہیڈ کوارٹر'' کو تباہ کر دیا ہے۔

ترکی 'کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس' (وائی پی جی) کو ایس ڈی ایف کا ہی ایک اہم جز سمجھتا ہے اور اسے پی کے کے کی ہی ایک توسیع شدہ یونٹ مانتا ہے۔

ادھر ایس ڈی ایف کے سربراہ مظلوم عبدی نے ٹویٹر پر کہا ہے کہ ان فضائی حملوں سے پورے خطے کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ''یہ بمباری کسی بھی فریق کے حق میں نہیں ہے۔ ہم کسی بھی بڑی تباہی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اگر جنگ چھڑ گئی تو سبھی متاثر ہوں گے۔''

ایس ڈی ایف کے ترجمان فرہاد شامی نے ایک ٹویٹ میں مزید کہا کہ جن علاقوں کو نشانہ بنایا گیا اس میں گنجان آبادی والے وہ دو گاؤں بھی شامل ہیں، جس میں بے گھر ہونے والے افراد رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بمباری کے نتیجے میں ''ہلاکتیں ہونے کے ساتھ زخمی بھی ہوئے ہیں۔''

انہوں نے مزید لکھا: ''کوبانی وہ شہر ہے، جس نے شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کو شکست دی تھی، ترکی نے اسے اپنے طیاروں کی بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔

ترکی نے سن 2016 کے بعد سے اب تک شام کے اندر سرحد پار سے تین بڑے آپریشن کیے ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، ایل یو ایس اے)

ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک پارلیمان کے اندرونی مناظر