1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمال مغربی شام ميں لڑائی کيوں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے؟

29 فروری 2020

روس اور ترکی نے اعلی سطح پر بات چيت کے بعد کشيدگی ميں کمی کی اميد ظاہر کی ہے تاہم شمال مغربی شام ميں زمينی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اسی ہفتے شام ميں تينيس ترک فوجيوں کی ہلاکت کشيدگی کی تازہ لہر کا باعث بنی۔

https://p.dw.com/p/3Yd7c
Türkisches Militär in Syrien - 27. Feb. 2020
تصویر: picture-alliance/K. Akacha

شام کا شمالی مغربی حصہ ان دنوں شديد کشيدگی کی زد ميں ہے۔ ادلب اب شام ميں وہ واحد صوبہ ہے، جہاں اب بھی دمشق حکومت کے مخالف باغی سرگرم ہيں۔ ايک طرف صدر بشار الاسد کی حامی افواج نے روسی معاونت سے اس شہر اور گرد و نواح ميں باغيوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے تو دوسری جانب ترک دستے باغيوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہيں۔

شمال مغربی شام کی تازہ صورت حال

سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس نے ہفتے انتيس فروری کے روز بتايا ہے کہ پچھلے چوبيس گھنٹوں کے دوران ترک افواج کی زمينی اور فضائی کارروائيوں ميں اڑتاليس شامی فوجی مارے گئے ہيں۔ آبزرويٹری کے مطابق اسی دوران روسی اور شامی فوج نے ادلب ميں لڑائی کے مرکز سراقب شہر ميں فضائی کارروائی بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔

ايک ترک اہلکار نے دعوی کيا ہے کہ ترک افواج نے شمال مغربی شام ميں کيميائی ہتھيار تيار کرنے والی ايک فيکٹری تباہ کر دی ہے۔ اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اس اہلکار نے بتايا کہ ترک فوجی دستوں نے جمعے اور ہفتے کی درميانی شب کارروائی کرتے ہوئے حلب سے قريب تيرہ کلوميٹر جنوب ميں واقع اس فيکٹری کو تباہ کر ديا۔ ساتھ ہی دمشق حکومت کے زير کنٹرول کئی ديگر ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنايا گيا۔

Türkei Verteidigungsminister Hulusi Akar  Syrien
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Akdogan

سفارتی سطح پر کيا ہو رہا ہے؟

روسی وزارت خارجہ کی جانب سے انتيس فروری کو جاری کردہ بيان ميں کشيدگی ميں کمی کے اميد ظاہر کی گئی ہے۔ يہ پيش رفت چھبيس تا اٹھائيس فروری اعلی سطحی روسی اور ترک وفود کے مابين بات چيت کے بعد سامنے آئی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے بيان ميں کہا گيا ہے کہ دونوں فريق کشيدگی ميں کمی چاہتے ہيں۔ يہ کشيدگی جمعرات کو فضائی حملے ميں تينتيس ترک فوجيوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آئی، جس کا الزام ترکی صدر اسد کی حامی فورسز اور حلیفوں پر عائد کر رہا ہے۔ اسی سلسلے ميں گزشتہ روز ترک و روسی صدور رجب طيب ايردوآن اور ولاديمير پوٹن نے بھی ٹيلی فون پر بات چيت کی۔

صورت حال خطرناک کيوں ہے؟

مغربی دفاعی اتحاد نيٹو نے شام اور روس پر زور ديا ہے کہ وہ ادلب پر بمباری کا سلسلہ روک دیں۔ اس سلسلے ميں گزشتہ روز نيٹو کے رکن ملکوں کے سفيروں کا ايک اجلاس منعقد ہوا، جس کے بعد اس عسکری اتحاد کے سيکرٹری جنرل ژينس اسٹولٹن برگ نے يہ بيان جاری کيا۔ دريں اثناء يورپی يونين نے بھی کہا ہے کہ شمالی شام ميں جاری مسلح تصادم جنگ کی شکل اختيار کر سکتا ہے اور ايسی ممکنہ صورتحال ميں بلاک سلامتی سے متعلق اپنے مفادات کے تحفظ کے ليے تيار ہے۔

 دوسری جانب حاليہ حالات کے پيش نظر ہزاروں کی تعداد ميں مہاجرين ترکی اور يونان کی سرحد پر جمع ہونے شروع ہو گئے ہيں۔ انقرہ حکومت نے حال ہی ميں يہ عنديہ ديا کہ وہ يورپ جانے والے مہاجرين کو نہيں روکے گا، جس کے بعد کئی بلقان رياستوں اور مشرقی يورپ ميں بارڈر سکيورٹی بڑھائی جا رہی ہے۔

ادلب میں زندگی تنگ ہوتی ہوئی

ع س / ع ح، نيوز ايجنسياں