1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شامی مہاجرین کی جائیدادیں ضبط کی جا سکتی ہے‘

27 اپریل 2018

بشار الاسد کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے تحت شامی خانہ جنگی کے دوران مہاجرت اختیار کرنے والے شامی اپنی املاک اور جائیداد سے محروم ہو سکتے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ نے بشار الاسد کے اس منصوبے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2wncy
Syrien Ost-Ghouta
تصویر: picture-alliance/dpa/SalamPix

جرمن روزناموں ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ اور رائنشے پوسٹ نے جمعے کے دن رپورٹ کیا ہے کہ شام کی تعمیر نو کے لیے نئے منصوبہ جات جاری کیے جانے کے بعد  شامی باشندوں کو اپنی جائیداد اور املاک کے لیے اپنے ملکیتی حقوق صرف تیس دنوں کے اندر اندر جمع کرانا ہوں گے۔

ڈونرز کانفرنس: ’شامی شہریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش‘

مہاجرین میں شناختی دستاويزات کی آن لائن تجارت عروج پر

آٹھ سال سے جاری شامی خانہ جنگی پر ایک نظر

خدشہ ہے کہ اگر اس منصوبے پر عمل کیا گیا تو جرمنی سمیت دیگر ممالک میں سکونت پذیر شامی مہاجرین اپنی املاک اور جائیداد سے محروم ہو جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ جرمنی اقوام متحدہ اور شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملک روس پر زور دے رہا ہے کہ وہ دمشق حکومت کو اس اقدام سے باز رکھیں۔

دونوں جرمن اخباروں نے مشرق وسطیٰ میں موجود اقوام متحدہ کے ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر شام میں اس منصوبے پر عمل ہوا تو زیادہ تر ایسے شامی متاثر ہوں گے، جو اپارٹمنٹس، بلڈنگز یا پلاٹوں کے مالک ہیں۔

ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ نے ورلڈ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ تر شامی مہاجرین اپنی ملکیت کے کاغذی ثبوت فراہم نہیں کر سکیں گے کیونکہ حکومت کے پاس تمام شامی باشدوں کی ملکیت کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بالخصوص حمص میں تباہی کی وجہ سے لوگوں اور حکومت کے پاس ایسے ریکارڈز ضائع ہو چکے ہیں۔

سات سالہ شامی خانہ جنگی کی وجہ سے چھ ملین شامی ملک کو خیرباد کہنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان میں سے ایسے مہاجرین انتہائی کم ہیں، جو اپنی پراپرٹی کے کاغذی ثبوت اپنے ساتھ لا سکیں تھے۔ اسی طرح ایسے چھ ملین شامی بھی ہیں، جو ملک کے اندر بے گھر ہوئے ہیں اور خدشہ ہے کہ وہ بھی ان کاغذات کو سنبھال نہیں سکیں ہوں گے۔

ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ کی رپورٹ کے مطابق جرمن وزارت خارجہ نے شامی صدر بشار الاسد کے اس منصوبے پر ’سخت غصے‘ کا اظہار کرتے ہوئے اسے لوگوں کو ان کی ’جائیداد سے محروم‘ کرنے کا ایک حربہ قرار دے دیا ہے۔

ذوڈ ڈوئچے سائٹنگ اور رائنشے پوسٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شامی حکومت نے بظاہر یہ منصوبہ اس لیے بنایا ہے تاکہ ’حکومت اور اس کے حامیوں کو مفادات پہنچائئے جا سکیں اور بڑے پیمانے پر جلا وطنی اختیار کرنے والے شامی باشندوں کی واپسی کے دروازے بند کر دیے جائیں‘۔

شام میں سن دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں زیادہ تر سنی آبادی آگے آگے تھی۔ اب خدشہ ہے کہ شام کی تعمیر نو اور بحالی کے کام میں اس آبادی کو مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے، بالخصوص دمشق، حمص اور ادلب میں۔

اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ شامی حکومت اب اپنے وفاداروں کو ہی تعمیراتی ٹھیکے دی گی اور ان کے مفادات کا خیال رکھا جائے گا۔ صدر بشار الاسد کے زیر کنٹرول علاقوں میں علوی، مسیحی، دروز، شیعہ اور اسماعیلی عقیدوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ہے۔

ایان جانسن/ ع ب / ع ت