1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی مہاجرین کو وطن واپسی پر حکومتی تشدد اور مصائب کا سامنا

7 ستمبر 2021

شامی حکومت نے ملکی مہاجرین سے کہا ہے کہ اب ملک محفوظ ہے، لہٰذا وہ واپس وطن آ جائیں۔ اس دعوے کو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں غلط قرار دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4019r
Türkei I Muslims Return To Syria For Eid Festival
تصویر: Depo/ZUMA/picture alliance

انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا ہے کہ شامی مہاجرین کو وطن واپسی پر حکومتی جبر کا سامنا ہے۔ ایسے جابرانہ اقدامات اس قید، پوچھ گچھ کے دوران تشدد، جبری اغوا اور جنسی تشدد بھی شامل ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ مجموعی طور پر شامی مہاجرین کے لیے وطن واپسی ایک نیا مشکل امتحان بن گیا ہے۔

شامی مہاجرین کی میزبانی کے لیے ترکی کو مزید فنڈز دینے کی تجویز

واپسی پر مہاجرین کے لیے خطرات

شامی حکومت نے ایسے مہاجرین کو واپس وطن آنے کی جو ہدایت کی ہے، اس کی وجہ بیشتر شامی علاقوں میں امن و سکون بتایا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک ریسرچر میری فوریسٹیئر نے بتایا کہ اب جو بھی مہاجر واپس شام پہنچتا ہے، اس سے باقاعدہ پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ واپس لوٹنے والے ملکی شہریوں کو شبے کی بنیاد پر قید میں رکھا جاتا ہے اور ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

Türkei Flüchtlinge in der Sanliurfa Provinz
شامی سرحد کے قریب ترک علاقے کی ایک عمارت میں شامی مہاجرین کی لڑکیاں باہر جھانکتی ہوئیتصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

اس مناسبت سے حکومتی اہلکار جبری طور پر مختلف افراد کو گھروں سے پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کئی شامی شہری لاپتہ ہو گئے ہیں اور بعض پر جنسی تشدد بھی کیا گیا۔

رپورٹ: 'آپ اپنی موت کی طرف جا رہے ہیں‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مرتب کردہ اس رپورٹ کا عنوان ہے: 'آپ اپنی موت کی طرف جا رہے ہیں‘ (You're going to your death)۔ اس کے لیے اس تنظیم نے 66 افراد کے انٹرویو کر کے ان کے پریشان کن تجربات کی تفصیلات جمع کیں۔ ان امیں تیرہ بچے بھی شامل تھے۔

ترکی کو مہاجرین کے لیے محفوظ قرار دینے پر یونان تنقید کی زد میں

یہ شامی باشندے سن 2017 میں مہاجرت کے بعد رواں برس کے اوائل میں واپس وطن پہنچے تھے۔ ان میں سے اب تک پانچ افراد کی حکومتی قید میں تشدد کے باعث موت ہو چکی ہے اور کم از کم 17 لاپتہ ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ رپورٹ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے اس موقف سے مطابقت نہیں رکھتی، جس میں ملکی مہاجرین کو واپس لوٹنے کی ہدایت اس بنیاد پر کی گئی ہے کہ اب سب کچھ بہت بہتر ہے اور ملک محفوظ ہے۔ اس اعلان کے بعد ہی بعض علاقوں میں شامی مہاجرین کی واپسی شروع ہوئی تھی۔

شامی مہاجرین کی واپسی کا سلسلہ

سویڈن اور ڈنمارک نے کئی شامی مہاجرین کے رہائشی اجازت نامے اس بنیاد پر منسوخ کر دیے ہیں کہ اب دارالحکومت دمشق اور اس کے قرب و جوار کے بیشتر علاقے محفوظ ہیں۔ اسی طرح لبنان اور ترکی کی حکومتیں بھی شامی مہاجرین پر وطن واپسی کے لیے دباؤ بڑھا رہی ہیں۔ ایسی رپورٹیں بھی ملی ہیں کہ ترکی نے کئی شامی مہاجرین کو جبراﹰ ملک بدر بھی کیا ہے۔

Syrien Demonstrationen
اردنی دارالحکومت عَمان میں شامی مہاجرین کا ایک گروپ بشار الاسد حکومت کے خلاف ایک مظاہرے میں شریکتصویر: Reuters

ایمنسٹی کی رپورٹ میں ان مہاجرین سے حاصل کردہ معلومات شامل کی گئی ہیں جو لبنان، رُکبان (اردن اور شام کی سرحد کے قریب شامی مہاجرین کی غیر رسمی آباد کاری)، فرانس، جرمنی، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے واپس گئے تھے۔

جرمنی: شامی مہاجرین کی واپسی پر عائد پابندی ختم

میری فوریسٹیئر نے واضح کیا ہے کہ شامی حکومت کے ملک کے محفوظ ہونے کا دعویٰ زمینی حقائق کے منافی ہے کیونکہ اب واپس جانے والوں کو ریاستی جبر کا سامنا ہے۔ انہوں نے مختلف ممالک سے اپیل کی کہ وہ شامی مہاجرین کو واپس بھیجنے میں جلدی نہ کریں۔

ع ح / م م (ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)