1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی جنگ مزيد پيچيدہ، کل کی حريف قوتيں، آج حامی بن گئيں

عاصم سلیم
12 فروری 2018

شام ميں امريکی حمايت يافتہ کُردوں کو اپنے خلاف جاری ترک افواج کی کارروائی سے نمٹنے کے ليے ايک غير متوقع ذريعے سے مدد حاصل ہو رہی ہے۔ عفرين ميں جاری مسلح تصادم ميں شامی کُردوں کو صدر بشار الاسد کے دستوں کی معاونت حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/2sWhI
Syrien Kämpfer der Freien Syrischen Armee
تصویر: Reuters/K. Ashawi

ويسے تو شام ميں ديگر مقامات پر حکومت نواز افواج اور کُرد ايک دوسرے کے خلاف برسرپيکار رہے ہيں تاہم عفرين ميں صورت حال ذرا مختلف ہے۔ اس محاذ پر دونوں ہی کو ايک يکساں دشمن کا سامنا ہے۔ انقرہ حکومت عفرين ميں کُرد مليشيا YPG کو اپنی جنوبی سرحد پر ايک خطرہ قرار ديتی ہے۔ اسی تناظر ميں ترکی نے پچھلے ماہ سے عفرين ميں مقامی کُردوں کے خلاف باقاعدہ عسکری کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ عفرين شہر اور سرحد کے دفاع کے ليے فوجی آپريشن کے آغاز پر کُردوں نے دمشق حکومت سے مدد کی اپيل کی تھی۔ اگرچہ  صدر اسد نے براہ راست مدد فراہم کرنے کا کوئی اشارہ نہيں ديا ليکن يہ ديکھنے ميں آيا ہے کہ بالواسطہ طور پر عسکری مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ اطلاع ہے کہ حکومت کے زير کنٹرول علاقوں سے کُردوں، عام شہريوں اور سياست دانوں کو عفرين پہنچنے ميں کسی رکاوٹ کا سامنا نہيں۔ علاقے ميں موجود دونوں اطراف کے نمائندگان نے بھی اس کی تصديق کر دی ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق در اصل اس کا صدر بشار الاسد کو فائدہ ہو گا۔ جيسے جيسے عفرين کا دفاع کرنے والے کُردوں کی صفوں ميں سپاہی بڑھيں گے، اُن کی مزاحمت بڑھے گی اور يہ مسلح تنازعہ طويل ہوتا جائے گا۔ اس سے ترک افواج کی حوصلہ شکنی بھی ہو گی اور ان کے جنگی وسائل بھی گھٹتے جائيں گے۔ يوں شام ميں مختلف علاقوں پر کنٹرول کی خواہش مند بيرونی قوتيں اسد کے آگے پسپا ہوتی جائيں گی۔

امريکا کے ليے بھی يہ ايک اہم موڑ ہے، جہاں انتظاميہ کو اس بات کا احساس ہو گا کہ سات سال سے جاری شامی خانہ جنگی ميں کس طرح کبھی کبھار اس کی حمايت يافتہ قوتوں کو بھی زمينی حقائق مد نظر رکھتے ہوئے صدر اسد کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔

بيرونی قوتوں سے مدد کی عدم دستيابی کے تناظر ميں شمالی شام ميں سرگرم کرد افواج نے کہا ہے کہ اضافی دستوں کی عفرين روانگی کے حوالے سے ان کا دمشق حکومت کے ساتھ ايک سمجھوتہ طے پايا ہے۔ کردوں کی اکثريت والی سيريئن ڈيموکريٹک فورسز کے ترجمان کينو گابريئل نے بتايا کہ اضافی دستوں کی عفرين تک رسائی کے مختلف راستے ہيں تاہم مرکزی روٹ حکومتی دستوں کے زير کنٹرول علاقوں سے ہی ہے۔

دريں اثناء ترکی کی جانب سے عفرين ميں شروع کردہ فوجی آپريشن سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انقرہ حکومت وائی پی جی کو اپنے ہاں سرگرم کردستان ورکرز پارٹی ہی کی ايک شاخ کے طور پر ديکھتی ہے، جس کے خلاف ترک افواج تين دہائيوں سے برسرپيکار ہيں اور جسے امريکا اور يورپی يونين نے بھی دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔