1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام پر امريکی و اتحاديوں کے حملے، يورپی رياستیں منقسم

16 اپریل 2018

لکسمبرگ ميں يورپی يونين کے وزرائے خارجہ کا ايک اجلاس جاری ہے، جس ميں وزراء پچھلے ہفتے شام پر امريکا، فرانس اور برطانيہ کے فضائی حملوں اور اس تناظر ميں سفارتی تناؤ سے نمٹنے کے ليے مشترکہ موقف اختيار کرنے کی کوشش کريں گے۔

https://p.dw.com/p/2w6jq
Luxemburg EU-Außenministertreffen
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand

شامی دارالحکومت دمشق کے نواح ميں ہونے والے حاليہ مبينہ کيميائی حملے کے رد عمل ميں امريکا، برطانيہ اور فرانس نے مشترکہ طور پر فضائی کارروائی کرتے ہوئے شام ميں کيميائی ہتھياروں کے مشتبہ ٹھکانوں کو ہفتے کے روز تباہ کر ديا۔ اس پيش رفت پر يورپی رياستيں منقسم ہيں۔ جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے دوما ميں مبينہ کيميائی حملے کے رد عمل ميں امريکا اور اس کے اتحاديوں کی کارروائی کو ’درست و لازمی‘ قرار ديا تھا ليکن يورپی يونين کے خارجہ امور کی سربراہ فيڈريکا موگرينی نے ہفتے کے روز جاری کردہ پيغام ميں باقاعدہ طور پر کارروائی کی توثيق نہيں کی بلکہ کيميائی حملے کے حوالے سے کہا کہ ’ذمہ داران کو بين الاقوامی قوانين کی اس خلاف ورزی کی قيمت چکانا ہوگی۔‘

اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر ايک يورپی اہلکار نے کہا ہے کہ يورپی يونين کو اس موقع پر متحد رہنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ملک انفرادی سطح پر ماسکو کے ليے پاليسياں اپنائيں۔ يہ امر اہم ہے کہ يورپی يونين ميں تقسيم کا روس فائدہ اٹھاتا آيا ہے، جس کی ايک تازہ مثال برطانيہ ميں سابق روسی جاسوس سيرگئی اسکرپل کو زير ديے جانے کا معاملہ ہے۔

لکسمبرگ ميں پير سولہ اپريل کے روز ہونے والے اجلاس ميں يورپی وزرائے خارجہ اس بارے ميں بات چيت کريں گے کہ شامی خانہ جنگی کے خاتمے کے ليے روس پر کس طرح دباؤ بڑھايا جائے۔ يورپی بلاک اب بھی اپنے موقف پر برقرار ہے کہ شام کے مسئلے کا حل عسکری کارروائی ميں نہيں۔ اٹھائيس رکنی بلاک جنيوا ميں امن مذاکرات کی بحالی پر زور ديتا آيا ہے۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں