1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام ميں پہلا حقيقی اور آزاد انقلاب، شامی دانشور

26 اگست 2011

پورے شام ميں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے دوران جمعرات اور جمعہ کی درميانی شب صدر بشار الاسد کی فوج نے آٹھ افراد کو ہلاک کر ديا۔ اس کی اطلاع حکومت کے خلاف چلائی جانے والی تحريک کے کارکنوں نے دی ہے۔

https://p.dw.com/p/12O1i
شامی صدر بشارالاسد ايک انٹر ويو کے دوران
شامی صدر بشارالاسد ايک انٹر ويو کے دورانتصویر: dapd

شامی حکومت اپنے مخالف مظاہرين کو کچلنے کے ليے مسلسل بے دردی سے طاقت استعمال کر رہی ہے۔ زيادہ تر اموات سڑکوں پر مظاہرے کرنے والوں پر فائرنگ کے نتيجے ميں ہوئيں۔ رمضان کے مہينے ميں تراويح کی نماز کے بعد روزانہ يہ مظاہرے ہو رہے ہيں، جن ميں لوگ شام پر اسد خاندان کی چار عشروں پر محيط حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہيں۔

دمشق کے جنوب ميں واقع قصبے قصوے ميں، جہاں اسرائيل کے زير قبضہ گولان کی پہاڑيوں سے آنے والے ہزاروں مہاجرين آباد ہيں، کل رات ہونے والے مظاہروں ميں مظاہرين جو پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے اُن ميں سے ايک پر لکھا تھا: ’’ليبيا کے عوام کو مبارکباد۔‘‘ دارالحکومت دمشق کے مغرب ميں اور لبنان کی سرحد سے قريب واقع شہر زبدانی ميں بھی کل رات حکومت مخالف مظاہرے کيے گئے۔

شہر حمص ميں ايک مظاہرہ
شہر حمص ميں ايک مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa

شام ميں اقتدار ميں کسی بھی قسم کی تبديلی کے پورے خطے پر گہرے اثرات پڑيں گے ليکن ملک کے اقليتی علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے صدر بشارالاسد کو ابھی تک ايک با اثر سنی کاروباری طبقے اور فوج اور سکيورٹی فورسز ميں اپنے وفادار عناصر کی حمايت حاصل ہے۔ فوج اور سکيورٹی فورسز کو ملک ميں کہيں بھی احتجاج کو کچلنے کے دوران بہت معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

45 سالہ بشارالاسد کو اقتدار سن 2000 ميں اپنے والد سے ورثے ميں ملا تھا۔ انہوں نے ايک طرف تو ايران اور لبنانی شيعہ گوريلا گروپ حزب اللہ سے روابط کو مضبوط بنايا ہے اور دوسری طرف انہوں نے اسرائيل سے امن مذاکرات کيے ہيں اور يورپ اور امريکہ کے ساتھ بھی صلح جوئی والا طرز عمل رکھا ہے، جو اُنہيں عالمی منظر پر بحال کرنے کی کنجی تھی۔ صدر اسد نے پچھلے اتوار کو رياستی ٹيلی وژن کو ايک انٹرويو ديتے ہوئے کہا کہ وہ مسلح گڑبڑ سے نمٹ رہے ہيں اور مغربی دباؤ کے سامنے نہيں جھکيں گے کيونکہ ’’مغرب ميں جو نوآبادياتی طاقتيں ہيں، اُن کے ليے اصلاحات کا مطلب يہ ہے کہ اُنہيں وہ سب کچھ دے ديا جائے جس کا وہ مطالبہ کر رہے ہيں اور اپنے سارے حقوق بيچ ديے جائيں۔‘‘

مظاہرين کے خلاف طاقت کا بے دردی سے استعمال
مظاہرين کے خلاف طاقت کا بے دردی سے استعمالتصویر: AP

شام کے شہر حماہ ميں احتجاج بہت پر زور ہے۔ دمشق کے شمال ميں ترکی کو جانے والی شاہراہ پر واقع شہر راستان ميں بھی حکومت کے خلاف روزانہ مظاہرے ہو رہے ہيں۔ شامی حکام نے مارچ ميں شروع ہونے والی بغاوت کے بعد زيادہ تر آزاد صحافيوں کو ملک سے باہر نکال ديا ہے۔ اس وجہ سے وہاں پيش آنے والے واقعات کی تصديق کرنا بہت مشکل ہے۔ بغاوت کی وجہ سے شام کی معيشت بہت متاثر ہوئی ہے۔ امريکہ اور مغربی ممالک شام پر اقتصادی پابندياں عائد کر چکے ہيں اور اب يورپی يونين نے کہا ہے کہ وہ شام سے تيل کی درآمد پر بھی پابندی لگا دے گی۔ اس سے شام کی آمدنی کا ايک بڑا ذريعہ متاثر ہوگا، جس کی مدد سے اسد حکومت فوج اور پوليس کے اخراجات ادا کرنے کے علاوہ اپنے وفاداروں کو انعامات سے نوازنے اور احتجاجات کو کچلنے کا کام انجام دے رہی ہے۔

راستان ميں ابھی تک حکومت کے حامی فوجيوں اور باغيوں سے مل جانے والے فوجيوں کے درميان لڑائی کی اطلاع بھی ملی ہے۔ شامی فوج کے اعلٰی افسر زيادہ تر بشار الاسد ہی کی طرح علوی فرقے سے تعلق رکھتے ہيں، جبکہ عام فوجيوں کی اکثريت سنی ہے۔ شام کی مجموعی آبادی کی اکثريت بھی سنی ہے۔

حکومت کے تشدد کا نشانہ بننے والے ايک دانشور فرزات نے کہا: ’’شام ميں ايک حقيقی اور آزاد انقلاب کا يہ پہلا موقع ہے۔‘‘

رپورٹ: شہاب احمد صديقی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں