1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شام علاقائی استحکام کی خاطر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے‘

کشور مصطفیٰ26 جولائی 2015

شامی صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ اُن کی فوج نے چند علاقوں سے پسپائی اختیار کر لی ہے تاکہ چند اہم علاقوں پر باغیوں کے قبضے کے خطرے سے نمٹا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/1G4xV
تصویر: DW/AA/I. Hariri

دمشق میں سرکاری ٹیلی وژن پر ایک بیان دیتے ہوئے اسد کا کہنا تھا، ’’شامی فوج کو کبھی کبھی اہم مقامات کی حفاظت کے لیے کچھ علاقوں سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔‘‘ اسد کے لہجہ تاہم پُر امید تھا کہ وہ 2011 ء سے جاری جنگ میں آخر کار کامیابی حاصل کر لیں گے۔ بشار الاسد نے مقامی معززین اور یونینوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً ہماری فوج ملک کے دفاع کی اہلیت رکھتی ہے اور اس نے کامیابیاں حاصل بھی کی ہیں۔ ہم ثابت قدم رہیں گے اور فتح حاصل کر کہ رہیں گے۔‘‘

قریب پانچ سال سے جاری جنگ سے نڈھال شامی فوج کو گزشتہ چند ماہ کے دوران سخت گیر موقف رکھنے والے جہادیوں کی طرف سے متعدد علاقوں میں پسپائی کا سامنا رہا ہے۔ گزشتہ مئی میں اسلامک اسٹیٹ کے انتہا پسند جنگجوؤں نے شام کے تاریخی شہر پالمیرا کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا، جس سے اس شہر میں قائم قدیم یادگاروں کے مستقبل کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے۔

گزشتہ دو ماہ سے زائد عرصے میں اپنے پہلے خطاب میں شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا تھا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس افرادی قوت کی کمی پائی جاتی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم شکست کی بات کریں۔‘‘

Bombardement in Aleppo Syrien Baby
حلب میں بمباری میں بچ جانے والا ایک نومولود بچہتصویر: Reuters/A. Ismail

ابھی ہفتے کے روز ہی بشار الاسد نے اپنی فوج سے فرار ہونے والوں اور منحرفین کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اتوار کو اپنے خطاب میں اسد نے ایران کی پشت پناہی والے لبنان کے حزب اللہ گروہ کی تعریف کی تھی، جو اب تک شام کی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔

واضح رہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں اب تک دو لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چُکے ہیں اور لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ملک کے کئی علاقے اب بھی حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کی قدرے مضبوط کہلائی جانی والی افواج کی تعداد تین لاکھ تھی لیکن لڑائی میں ہلاکتوں اور فوجی چھوڑ کر بھاگنے والوں کی وجہ سے فوجیوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔

بشار الاسد نے اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ اُن کا ملک علاقائی استحکام کی خاطراپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اسد کے بقول، ’’ شام کی اس جنگ میں فتح کا مطلب محض دہشت گردی کو شکست دینا نہیں ہوگا بلکہ اس سے پورے خطے کو استحکام حاصل ہوگا۔‘‘