شام: انتہا پسندوں کا حکومت مخالف تحريک ميں شموليت کا اعلان
22 مارچ 2012خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق شام ميں موجود انتہا پسند، مسلمان گروپوں نے اللہ اکبر بريگيڈ کے قيام کا اعلان اور اس کی حکومت مخالف تحريک ميں شموليت کا اعلان کرتے ہوئے تحريک کو اب اپنے طور پر جہاد قرار دے ديا ہے۔ انہوں نے اس عہد کا بھی اظہار کيا ہے کہ وہ صدر بشارالاسد کا تختہ اُلٹ کر ہی دم ليں گے۔ جنوری ميں منظر عام پر آنے والی ايک ويڈيو ميں اللہ اکبر بريگيڈ کے ايک رکن نے کہا، ’ہمارے ساتھيوں کو خدا کی راہ ميں اس جہاد ميں حصہ لينے کے ليے کسی قسم کا خوف نہيں ہونا چاہيے۔ ملک کے ايک حصے کی جگہ پوری قوم کے ليے لڑيں اور قوم کے بجائے اپنے خدا کے ليے لڑيں‘۔ اللہ اکبر بريگيڈ نے سخت گير رويہ اختيار کيا ہے اور وہ تحريک ميں شامل لوگوں کو بھی اسی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔
اے پی کے مطابق شام ميں جاری حکومت مخالف تحريک تيزی سے ايک مسلح بغاوت کا رخ اختيار کرتی جا رہی ہے اور اس صورتحال ميں ملکی اور غير ملکی مسلمان، انتہا پسند گروپ تاک لگائے بيٹھے ہيں۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ ميں اس بات کا بھی انکشاف کيا گيا ہے کہ خطے ميں جاری اسلامی تحريکيں صدر بشارالاسد کا تختہ اُلٹنے کے بعد شام ميں زور پکڑنے کی خواہاں ہيں۔
شام ميں جاری حکومت مخالف تحريک ميں مسلمان انتہا پسند گروہوں کا کردار کس حد تک ہے، اس بات کا تعين کرنا مشکل اس ليے ہے کيونکہ شام کی حکومت نے مخالفت اور مظاہروں کی خبروں اور رپورٹنگ کو کافی حد تک روکا ہوا ہے۔ اپوزيشن اہلکار اپنی تحريک ميں انتہا پسند عناصر کے عمل دخل کے معاملے پر بات کرنے سے گريز کرتے نظر آتے ہيں کيونکہ حکومت کا پہلے سے ہی يہ دعوٰی ہے کہ صدر بشارالاسد کے خلاف تحريک مکمل طور پر انتہا پسند، دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔ البتہ چند اپوزيشن کارکنان يہ بھی تسليم کرتے ہيں کہ موجودہ صورتحال ميں حکومت کے مبينہ مظالم کے خلاف انتہا پسند عناصر چند لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بن سکتے ہيں۔ دمشق سے تعلق رکھنے والے ايک طالب علم کارکن عمر نے اس سلسلے ميں کہا، ’ظلم و جبر انتہا پسند رويے کو جنم ديتا ہے۔ جب کسی انسان کے پاس کوئی چارہ نہيں ہو تو وہ کسی کا بھی سہارا لے سکتا ہے‘۔
ادھر شام ميں مسلمان انتہا پسند گروہوں کی اس پيش رفت کے نتيجے ميں امريکا اور کئی ممالک کے ليے شام کی صورتحال اب مزيد پيچيدہ ہو گئی ہے۔ امريکا، شامی اپوزيشن کی مدد کرنا چاہتا ہے ليکن وہ يہ نہيں چاہتا کہ ہتھيار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگيں۔ يہی وجہ ہے کہ امريکی حکام شام ميں باغی گروپوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے خلاف فيصلہ کر چکے ہيں۔ امريکی حکام نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عراق ميں موجود القائدہ کے کارکنان شام کا رخ کر رہے ہيں۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعوٰی ہے کہ شامی حکومت منظم طریقے سے مخالفین پر تشدد کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس سے شام میں جاری بحران، حکومت کی جانب سے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن اور خانہ جنگی کی سی صورت حال کے نتیجے میں اب تک آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: کشور مصطفی