1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: انتہا پسندوں کا حکومت مخالف تحريک ميں شموليت کا اعلان

22 مارچ 2012

مشرقی شام ميں موجود مسلح انتہا پسند گروپوں نے ملک ميں جاری حکومت مخالف تحريک ميں شموليت کا انٹرنيٹ کے ذريعے اعلان کر ديا ہے۔ اس پيش رفت نے بين الاقوامی طور پر شام کی صورتحال کو مزيد پيچيدہ بنا ديا ہے۔

https://p.dw.com/p/14PFR
This image made from amateur video and released by the Syria media center Tuesday, March 20, 2012, purports to black smoking rising from buildings in Homs, Syria. An international human rights group Tuesday accused some in Syria's armed opposition of carrying out serious abuses, including the kidnapping and torture of security forces, in a sign of the growing complexity of the year-old uprising against President Bashar Assad. (Foto:Syria Media Center via AP video/AP/dapd) THE ASSOCIATED PRESS CANNOT INDEPENDENTLY VERIFY THE CONTENT, DATE, LOCATION OR AUTHENTICITY OF THIS MATERIAL. TV OUT
Syrien Homs Kämpfe Rauchتصویر: AP

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق شام ميں موجود انتہا پسند، مسلمان گروپوں نے اللہ اکبر بريگيڈ کے قيام کا اعلان اور اس کی حکومت مخالف تحريک ميں شموليت کا اعلان کرتے ہوئے تحريک کو اب اپنے طور پر جہاد قرار دے ديا ہے۔ انہوں نے اس عہد کا بھی اظہار کيا ہے کہ وہ صدر بشارالاسد کا تختہ اُلٹ کر ہی دم ليں گے۔ جنوری ميں منظر عام پر آنے والی ايک ويڈيو ميں اللہ اکبر بريگيڈ کے ايک رکن نے کہا، ’ہمارے ساتھيوں کو خدا کی راہ ميں اس جہاد ميں حصہ لينے کے ليے کسی قسم کا خوف نہيں ہونا چاہيے۔ ملک کے ايک حصے کی جگہ پوری قوم کے ليے لڑيں اور قوم کے بجائے اپنے خدا کے ليے لڑيں‘۔ اللہ اکبر بريگيڈ نے سخت گير رويہ اختيار کيا ہے اور وہ تحريک ميں شامل لوگوں کو بھی اسی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔

اے پی کے مطابق شام ميں جاری حکومت مخالف تحريک تيزی سے ايک مسلح بغاوت کا رخ اختيار کرتی جا رہی ہے اور اس صورتحال ميں ملکی اور غير ملکی مسلمان، انتہا پسند گروپ تاک لگائے بيٹھے ہيں۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ ميں اس بات کا بھی انکشاف کيا گيا ہے کہ خطے ميں جاری اسلامی تحريکيں صدر بشارالاسد کا تختہ اُلٹنے کے بعد شام ميں زور پکڑنے کی خواہاں ہيں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعوٰی ہے کہ شامی حکومت منظم طریقے سے مخالفین پر تشدد کر رہی ہے
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعوٰی ہے کہ شامی حکومت منظم طریقے سے مخالفین پر تشدد کر رہی ہےتصویر: REUTERS

شام ميں جاری حکومت مخالف تحريک ميں مسلمان انتہا پسند گروہوں کا کردار کس حد تک ہے، اس بات کا تعين کرنا مشکل اس ليے ہے کيونکہ شام کی حکومت نے مخالفت اور مظاہروں کی خبروں اور رپورٹنگ کو کافی حد تک روکا ہوا ہے۔ اپوزيشن اہلکار اپنی تحريک ميں انتہا پسند عناصر کے عمل دخل کے معاملے پر بات کرنے سے گريز کرتے نظر آتے ہيں کيونکہ حکومت کا پہلے سے ہی يہ دعوٰی ہے کہ صدر بشارالاسد کے خلاف تحريک مکمل طور پر انتہا پسند، دہشت گرد تنظيموں کی جانب سے چلائی جا رہی ہے۔ البتہ چند اپوزيشن کارکنان يہ بھی تسليم کرتے ہيں کہ موجودہ صورتحال ميں حکومت کے مبينہ مظالم کے خلاف انتہا پسند عناصر چند لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بن سکتے ہيں۔ دمشق سے تعلق رکھنے والے ايک طالب علم کارکن عمر نے اس سلسلے ميں کہا، ’ظلم و جبر انتہا پسند رويے کو جنم ديتا ہے۔ جب کسی انسان کے پاس کوئی چارہ نہيں ہو تو وہ کسی کا بھی سہارا لے سکتا ہے‘۔

ادھر شام ميں مسلمان انتہا پسند گروہوں کی اس پيش رفت کے نتيجے ميں امريکا اور کئی ممالک کے ليے شام کی صورتحال اب مزيد پيچيدہ ہو گئی ہے۔ امريکا، شامی اپوزيشن کی مدد کرنا چاہتا ہے ليکن وہ يہ نہيں چاہتا کہ ہتھيار انتہا پسندوں کے ہاتھ لگيں۔ يہی وجہ ہے کہ امريکی حکام شام ميں باغی گروپوں کو اسلحہ فراہم کرنے کے خلاف فيصلہ کر چکے ہيں۔ امريکی حکام نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ عراق ميں موجود القائدہ کے کارکنان شام کا رخ کر رہے ہيں۔

شام ميں حکومت مخالف تحريک تيزی سے مسلح بغاوت کا رخ اختيار کرتی جا رہی ہے
شام ميں حکومت مخالف تحريک تيزی سے مسلح بغاوت کا رخ اختيار کرتی جا رہی ہےتصویر: AP

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا دعوٰی ہے کہ شامی حکومت منظم طریقے سے مخالفین پر تشدد کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس سے شام میں جاری بحران، حکومت کی جانب سے مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن اور خانہ جنگی کی سی صورت حال کے نتیجے میں اب تک آٹھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان ہلاکتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ: عاصم سليم

ادارت: کشور مصطفی