1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شادی نہ ہوئی گاؤں کا میلہ ہو گیا 

9 اکتوبر 2020

کورونا وائرس نے جہاں زندگی کی باقی ترجیحات کو بدلا ہے، وہاں لگے ہاتھوں شادی کی تقریبات کے رنگ بھی پھیکے کردیے ہیں۔ ڈھول باجے ٹھنڈے ہوگئے ہیں اور ہلا گلا بھی قریبی رشتہ داروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3jglj
تصویر: Privat

شادی کی تقریب دراصل معاشرے میں دو نامحرموں کے درمیان تعلق کو قانونی حیثیت دینے کی ایک رسم ہوتی ہے۔ ہوتے ہوتے یہ تقریب اب طرح طرح کی اخلاقیات اور اوقات سے زیادہ اخراجات کی پابند ہو گئی ہے۔ بچوں کی شادی کے انتظامات کے لیے ماں باپ ساری زندگی منصوبہ بندیوں میں گزار دیتے ہیں۔ سماجی طور پر اس موقع کو اتنا اہم سمجھا جاتا ہے کہ دور پرے کے رشتے داروں، ان کے بھی رشتہ داروں، اپنے دوستوں، دفتر کے ساتھیوں بزنس پارٹنروں سمیت دور قریب کے سب لوگوں کو بلانا لازمی ہوتا ہے۔ پھر اس شادی پر آنے والے اخراجات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ اس جوڑے میں کتنا دم ہے۔

کورونا وائرس کی 'برکت‘ سے اب شادی کی تقریبات اور سرگرمیاں محدود ہوتی نظر آرہی ہیں۔ بڑے بڑے پنڈالوں، کھانےکی میزوں اور جگمگاتی روشنیوں کی جگہ اب مناسب طور طریقوں میں ان تقریبات کو ڈھالنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ روایتی طور طریقوں کے ساتھ مخصوص لوگوں کی شرکت، محدود وسائل اور کم پرائز ٹیگز کے ساتھ ان تقریبات کو دیکھیں تو لگتا ہے لوگ یہی کچھ چاہتے تھے مگر انہیں بہانہ نہیں مل رہا تھا۔ اب بہانہ مل گیا ہے تو وہ حقیقت اور سہولت کی طرف لوٹنے میں ذرا آسانی محسوس کر رہے ہیں۔

شادی کی تقریب میں سب سے اہم موقع وہی ہوتا ہے، جس میں دلہن اور دلہا رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔ اتنی سی بات کو بڑھا کر ہم گاؤں کا میلہ تو بنا دیتے ہیں مگر اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ اس میں تفریح کا سامان قریبی لوگوں کے علاوہ کسی کے لیے نہیں ہو سکتا۔ آپ شادی کم بجٹ پر کریں یا زیادہ پر، یہ آپ کی اپنی مرضی ہے۔ مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ پرائز ٹیگز کے ساتھ بھی وہ ویسا ہی ماجرا ہوتا ہے، جیسا سہولت کے ساتھ ہونے والی شادی کا ہوتا ہے۔


شادی بنیادی طور پر ازدواجی زندگی کے لیے کیا جانے والا وہ فیصلہ ہے، جس سے بعد فیملی جیسے ادارے کی بنیاد پڑتی ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ اس فیصلے کے اعلان کو اہمیت حاصل رہی ہے۔ قرون وسطی میں لوگ ڈھول باجوں کے ذریعے، آس پاس کھانے کی تقسیم کے ذریعے، بوسے کے ذریعے یا کسی بھی عوامی اعلان کے ذریعے اپنے اس فیصلے کا اعلان کردیا کرتے تھے۔


لہذا، میں جو کچھ کہنے کی کوشش کر رہی ہوں وہ یہ ہے کہ شادی کی تقریب کرنا کچھ ایسی غلط بات یا روایت نہیں ہے۔ بس اتنی بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ دوسری تمام سماجی تقریبات جیسی ہی ایک تقریب ہوتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس تقریب کو انوکھی حیثیت دینے کے لیے ہم ہر حوالے سے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ معاملہ غیر حقیقی لگنے لگتا ہے۔ خوشی سے زیادہ یہ ایک ایسا بوجھ لگنے لگتی ہے، جو ہم لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے اپنے سر لیتے ہیں۔

 اب تو سوشل میڈیا صارفین کی مہربانی سے جوڑے، خاص طور پر دلہن کے حوالے سے غیر ضروری اور غیر حقیقی توقعات کی بمباری کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کا یہ بڑا دن کس رنگ ڈھنگ کا ہونا چاہیے۔ ٹی وی، فلموں، رسالوں اور دیگر مشہور ثقافتی مراکز میں بڑے پیمانے پر یہ بات ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ شادی کی تقریب محض کوئی تقریب نہیں ہوتی بلکہ  یہ توکوئی مقدس دن ہوتا ہے جب  دو افراد پوری زندگی ایک دوسرے کے لیے 'وقف‘ کرنے کا عہد و پیمان کرتے ہیں۔


انسان سماجی زندگی میں جن چیزوں کو جو مطلب دیتا ہے اسی کو دیکھتے ہوئے عمل کرتا ہے یا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم سماجی توقعات کو ہر چیز سے بڑھ کر اہمیت دیتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ اچھی شادی اور وفاومحبت کا ثبوت پرائز ٹیگز ہوتے ہیں، یا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کی توقعات پر پورا اترنا ضروری ہوتا ہے، تو یہ ایک غیر حقیقی دوڑ ہے اور لاحاصل سی جنگ۔ ذہنی سکون کو بڑھانا ہے تو ایک بار مہمانوں کی فہرست گھٹا کر دیکھ لیں۔

 

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26