’سیلاب رحمت بن کر آیا‘
25 جولائی 2011گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے پاکستان کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے بخش علی لاشاری کا گھر تو اجاڑ ہی دیا لیکن اسے اُس خوف اور ڈر سے بھی نجات مل گئی، جو ہر وقت موت بن کر اس کے سر پر منڈلاتا رہتا تھا۔ وہ اور اس کا خاندان آج کل ایک خیمے میں زندگی برس کر رہے ہیں۔ سیلاب کا پانی اترنے کے باوجود بھی وہ اپنے گھر لوٹنا نہیں چاہتا۔ ’’میں نہیں چاہتا کہ میں دوبارہ اُس جاگیردارانہ نظام کا حصہ بن جاؤں، جہاں قرضوں او شادیوں کا نتیجہ اکثر موت پر ہی منتج ہوتا ہے۔‘‘
لاشاری بتاتے ہیں کہ ایک با اثر قبیلے کی ایک خاتون نے ان کے خاندان کے ایک شخص سے شادی کر لی۔ ’’شادی کے بعد وہ جوڑا تو اچانک غائب ہو گیا لیکن مصیبت ہم پر ٹوٹ پڑی۔ دونوں قبائل میں دشمنی شروع ہو گئی اور انہوں نے ہمیں ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔‘‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ اگر سیلاب نہ آتا تو شاید معمول کی زندگی میں لوٹنا ایک خواب ہی رہ جاتا۔ ’’سیلاب کی وجہ سے ہمیں گاؤں چھوڑ کو بھاگنا پڑا اور ہم نےعارضی کیمپوں میں آ کر پناہ لی۔ یہاں نہ تو دشمنی تھی اور نہ ہی قتل کیے جانے کا ڈر۔ سیلاب ہمارے لیے ایک رحمت بن کر آیا، اب ہم واپس نہیں جانا چاہتے۔‘‘
سیلاب کا پانی اترنے کے ساتھ ہی متعدد کیمپ باقاعدہ طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ بہت سے افراد، جو مختلف وجوہات کی وجہ سے اپنے علاقوں میں واپس نہیں جانا چاہتے، اِنہی اجڑے ہوئے کیمپوں میں اپنے شب و روز بسر کر رہے ہیں۔ امدادی تنظیموں کی غیر موجودگی میں ان عارضی بستیوں کی حالت انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔
صحافی جعفر میمن کے بقول ان میں سے بہت سےافراد ایسے ہیں، جو بنیادی سہولیات کے فقدان کے ساتھ تو رہنے پر راضی ہیں لیکن وہ موت کے خوف کے سائے میں زندگی گزارنا نہیں چاہتے۔ بخش علی لاشاری کی طرح بہت سے متاثرین ایسے ہیں، جن کا کسی بھی قیمت پر ان کی پرانی زندگی کی جانب لوٹنا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ ’’بیشک حکومت ہمارے گھر دوبارہ تعمیر بھی کر دے، تو بھی ہم واپس نہیں جائیں گے۔‘‘
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: امجد علی