1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاستدان علاج کے لیے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟

16 دسمبر 2022

آج سے کوئی دس یا بارہ برس قبل جب بھی کوئی سیاستدان دارالحکومت نئی دہلی کے رام منوہر لوہیا ہسپتال میں علاج کے لیے داخل ہوتا تھا تو نیوز ایڈیٹر فوراﹰ ہی حکم صادر کرتے تھے کہ اس لیڈر کی رحلت کی خبر تیار رکھی جائے۔

https://p.dw.com/p/4L2dz
Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
تصویر: Privat

ایسا مانا جاتا تھا کہ لیڈر صاحب شاید اب دوسری دنیا کے سفر کے لیے ہسپتال پہنچ گئے ہیں۔ ہسپتال نہ ہوا بلکہ ایئر پورٹ ہوا، جہاں سے دوسری دنیا کی فلائٹ پکڑنے کے لیے لیڈر صاحب پہنچ چکے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، لوہیا ہسپتال کی جگہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے لے لی، جہاں باضابطہ ایک نیا وارڈ وی وی آئی پی مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

مگر واہ رے میرے سیاستدان! اب انہوں نے تہیہ کر رکھا ہوا ہے کہ ہسپتال پہنچنے سے قبل فلائٹ ضرور لینی ہے۔ وہ علاج کے لیے سیدھے سنگاپور یا مغربی ممالک میں خاص طور پر امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ خود تو بیرون ملک جا کر علاج کرواتے ہیں مگر پارلیمنٹ میں اپنے ملک میں بہتر علاج و معالجے کی تعریفیں کرتے تھکتے بھی نہیں۔

گزشتہ ہفتے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور موجودہ نائب وزیر اعلیٰ کے والد لالو پرساد یادیو نے سنگاپور کے ایک ہسپتال میں گردے کی پیوند کاری کروائی۔ بیرون ملک علاج کروانے والوں میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ اس فہرست میں کانگریس لیڈر سونیا گاندھی، کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجین، مرکز میں بی جے پی کے سابق وزیر اننت کمار، گوا صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ  منوہر پاریکر، امر سنگھ یعنی سبھی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ان گنت لیڈران شامل ہیں۔

آخر جب بھارت کے تمام بڑے شہروں دہلی، ممبئی، بنگلور اور چنئی کے ہسپتالوں میں افغانستان، وسطی ایشیائی اور افریقی ممالک سے مریض آتے ہیں، سیاست دان اپنے علاج کے لیے باہر کیوں جانا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنے ملک کے اداروں پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟

یہ وبا بھارت تک ہی محدود نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی کسی سیاست دان کو چھینک ہی آ جائے تو وہ فلائٹ کا ٹکٹ کٹوا کر باہر علاج کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں صحت کا بنیادی ڈھانچہ شاید کمزور ہو مگر بھارت میں تو اب سہولیات مہیا ہیں۔ ایک طرف میڈیکل ٹورازم کو فروغ دینے کی باتیں تو دوسری طرف آپ علاج کے لیے باہر کا رخ کرتے ہیں۔

پاکستان: ارکان پارلیمان کا بیرون ملک مہنگا علاج

جب سیاستدانوں سے اس تضاد کی بابت معلوم کرتے ہیں تو وہ میڈیا کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی ملکی ہسپتال میں داخل ہوتے ہی میڈیا ان کی بیماری کی تشہیر کر دیتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی ویب سائٹ ہی مشتہر کرتی ہے کہ کون سا ممبر پارلیمنٹ اس وقت ہسپتال میں زیر علاج ہے اور کیوں کارروائی سے غیر حاضر ہے۔

 بیماری کو مشتہر کرنا کسی وقت ہمدردی تو بٹورتا ہے مگر بسا اوقات انتخابات میں، جب ٹکٹ دینے کا مرحلہ آتا ہے، تو اعلیٰ لیڈران ممبر پارلیمنٹ کی صحت کو بھی ایک معیار بناتے ہیں۔ کیونکہ الیکشن مہم چلانا ایک تکلیف دہ اور سخت محنت کا کام ہوتا ہے۔

بتایا جاتا ہےکہ عوامی شخصیت کی زندگی آسمان پر اڑتی ہوئی پتنگ کی طرح ہوتی ہے، جس کی ڈور عوام اور اس کے پارٹی کے کارکنوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ پارٹی کارکناں اس پتنگ کے سہارے اپنے کیریئر کو بھی محفوظ بناتے ہیں۔ اگر وہ زیادہ بیمار ہے تو پارٹی کارکنان اپنے کیریئر کی خاطر کسی دوسرے لیڈر کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔

ایک دہائی قبل، جب کانگریس پارٹی ملک پر حکومت کر رہی تھی، اس کی صدر سونیا گاندھی کو نیویارک کے ایک ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔ یہ افواہ جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ گاندھی کو کینسر کی تشخیص ہوئی ہے اور ان کا علاج چل رہا ہے اور یہ کہ اب انہیں جلد سے جلد اپنے جانشین کا انتخاب کرنا پڑے گا۔

 گاندھی کی صحت اور ان کی پارٹی کا مستقبل سیاسی گلیاروں سے لے کر عوام کےگھروں لے کر ڈرائینگ رومز تک میں بحث و مباحثہ کا موضوع بن گیا تھا۔

لالو یادیو، جن کا ابھی ابھی سنگاپور میں ٹرانسپلانٹ ہوا ہے، ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اگلے تین چار ماہ زیر علاج ہی رہیں گے، جس کا مطلب ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے تک عوامی زندگی سے باہر رہیں گے۔ اگر ان کی یہ سرجری بھارت کے کسی ہسپتال میں ہوئی ہوتی تو ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد وہ اپنے گھر جاتے اور پھر ان کے دروازے پر پارٹی کے اراکین اور خیر خواہوں کی قطاریں لگ گئی ہوتیں۔

 سیاسی تجزیہ کار ابھے کمار کہتے ہے کہ بطور عوامی شخصیت، جسے اپنے ووٹروں اور حامیوں کو خوش رکھنا ہوتا ہے، وہ چاہے کتنا ہی گریز کرنا چاہیے، تیمارداروں کے لیے گھر یا ہسپتال کے دروازے بند نہیں کر سکتے ہیں۔

ایک سیاست دان کو ہمیشہ یہ خوف بھی لاحق رہتا ہے کہ ملک میں علاج کے نام پر اس کی ذاتی زندگی سڑکوں پر آجائے گی۔

میڈیا تو اخباروں میں اس کا ذکر ایسے کرے گا، جیسے اس نے اوپر جانے کا ٹکٹ کٹوا ہی دیا ہے۔ اس کے جانشین ، کارکردگی ، میراث اور شخصیت کے بارے میں گفتگو ہو گی۔ یعنی جیسے میڈیا اس کے مرنے کی رہرسہل کر رہا ہوتا ہے۔

تجزیہ کار بلال سبزواری کا کہنا ہے کہ عوامی زندگی سیاستدانوں کو دولت اور شہرت عطا تو کرتی ہے مگر اس کے ساتھ ان میں عدم تحفظ بھی پیدا ہوتا ہے۔ دولت تو دائمی رہتی ہے مگر شہرت اور عوامی حمایت ایک پتنگ کی طرح ہوتی ہے، جو کسی بھی وقت نیچے آ سکتی ہے۔

 آج سے بیس سال قبل کے کتنے فعال سیاستدانوں کے نام آج کل ہم جانتے ہیں یا وہ میڈیا کی زینت بنتے ہیں؟ شہرت تو آنی جانی ہے مگر جب میڈیا ہسپتال میں علاج و معالجہ کرنے والے لیڈر کو شہرت دیتا ہے تو وہ اس کے لیے وبال جان بن جاتی ہے۔

 شاید یہ وجہ ہے کہ وہ سنگاپور یا مغربی ممالک کا رخ کر کے، کسی طرح اپنی بیماری اور علا ج معالجہ کو خفیہ رکھ کر اپنے سیاسی کیریئر کو کسی طرح دوام بخشتے ہیں۔ لیکن  یہ فقط میری ذاتی رائے ہے۔ آپ بھی بتائیں کہ آخر اپنے ملک میں بین الاقوامی معیار کی علاج و معالجے کی سہولیات ہونے کے باوجود لیڈران کیوں باہر کا رخ کرتے ہیں؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔