1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہلک جینیاتی بیماری سے شفا بخشنے والے سپر سیلز

2 جنوری 2020

جینیاتی بیماری کی وجہ سے مدافعاتی نظام خراب ہو، تو ہڈیوں کے گودے کا ٹرانسپلاٹ ایک موثرعلاج ہو سکتا ہے، مگر اس طریقے میں خامی یہ ہے کہ اس سے مدافعاتی نظام ابتدائی چند ماہ بے حد کم زور ہو جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3VbEX
Symbolbild Stammzellenforschung USA
تصویر: Getty Images/S. Platt

ٹی سیل کے نام سے ایک تجرباتی قسم کا علاج اس خطرے سے دوچار جسم کو مدد فراہم کرتا ہے، یعنی وہ مدت جب مریض کا جسم اپنے دفاع کو مضبوط بنا رہا ہوتا ہے۔ دو دہائیوں کی کلینیکل آزمائشوں کے بعد علاج کی اس ٹیکنالوجی کو  بہتر بنا لیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اب یہ زیادہ سے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ان مریضوں میں بیشتر بچے ہیں۔ 

لیبارٹری میں جسمانی اعضاء کی تیاری شروع کر دی

ایمبریو کی کلوننگ میں تاریخی کامیابی

ہڈیوں کے گودے کے اسٹیم سیلز سے مہلک بیماریوں کا علاج ممکن
یوہان نامی لڑکا ان ہی میں سے ایک تھا۔ آج وہ ایک ہلکے بھورے گھنے بالوں والا مسکراتا ہوا ایک ایسا شراتی بچہ ہے جو اپنے کتے ہنری سے کھیلتے ہوئے کبھی نہیں تھکتا۔ انھیں دیکھ کر اب بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ واشنگٹن کے ایک نواحی علاقے میں رہنے والے اس خاندان نے تین برس قبل سخت جذباتی مشکلات میں وقت گزارا ہے۔  یوہان کی والدہ کوعلم تھا کہ ان کے جین کی وجہ سے ان کا کوئی بچہ ایک ایسی جینیاتی بیماری سی جی ڈی کا شکار ہو سکتا ہے، جو بچے کی زندگی کے پہلے دس برسوں میں مہلک ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس کا بھائی بھی سات سال کی عمر میں اس بیماری کی وجہ سے فوت ہو گیا تھا۔
جینیاتی طور پر مارین کے بچوں میں اس جینیاتی بیماری کی منتقلی کا امکان پچیس فیصد کے قریب تھا یعنی چار میں سے ایک بچہ۔ اپنے پہلے بچے کے لیے مارین اور ان کے شوہر ریکارڈو نے ان وٹرو فرٹیلائزیشن کا انتخاب کیا تھا۔ اس طریقے میںتولیدی انڈوں کو پلانٹ کرنے سے پہلے جینیاتی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ ان کے دو جڑواں بچے یوہان سےپہلے پیدا ہوئے تھے جو اس بیماری سے پاک تھے لیکن یوہان کی پیدائش کے فوری بعد جینیاتی ٹیسٹ سے اس بات کی تصدیق ہو گئی تھی کہ وہ اس بیماری جی ڈی سی میں مبتلا ہے۔
 واشنگٹن کے نیشنل چلڈرن ہسپتال کے طبی ماہرین سے مشورے کے بعد اس جوڑے نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر لیا کہ یوہان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا جائے گا جو کہ ایک خطرناک لیکن ممکنہ علاج تھا۔ بون میرو ہڈیوں کے اندر سرخ اور سفید خلیوں کی پیدائش کا کام کرتا ہے۔ خوش قسمتی سے یوہان کا بھائی اس وقت چھ سال کا تھا جو اس کے بون میرو کے لیے بہترین میچ ثابت ہوا۔    
نوزائیدہ بچے یوہان کے خون کے سفید خلیے بیکٹیریا اور انفیکشن سے لڑنے کے قابل نہیں تھے۔  اپریل دو ہزار اٹھارہ میں ڈاکٹرز نے سب سے پہلے کیمیو تھیراپی کا استعمال کرتے ہوئے یوہان کے بون میرو کی صفائی کی اور اس کے بعد انہوں نے لمبی پتلی سوئی کا استعمال کرتے ہوئے یوہان کے بھائی تھامس کے کولہے کی ہڈیوں سے گودا حاصل کیا۔ اس گودے سے انہوں نے سپر سیل یعنی کہ سٹیم سیل نکالے اور انہیں یوہان کی رگوں میں داخل کر دیا تا کہ وہ خلیات اس کی ہڈیوں کے گودے میں سفید خون کے خلیوں کی پیداوار شروع کر دیں۔

دوسرا مرحلہ سیل تھیراپی، نیشنل ہسپتال کے امیونو لوجسٹ ڈاکٹر کیلر کی زیر قیادت ایک تجرباتی پروگرام کے تحت تھا۔ مدافعتی نظام کا وہ حصہ جو بیکٹیریا سے محفوظ رکھتا ہے چند ہفتوں میں دوبارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے لیکن وائرس کے لیے اس قدرتی عمل کو کم از کم تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔
تھامس کے خون سے ڈاکٹرز نے سفید خلیات ٹی سیلز نکالے جو پہلے ہی چھ وائرسز سے لڑ چکے تھے۔ ڈاکٹر کیلر نے ان کو انکیوبیٹر میں دس دن تک بڑھایا، جس کے ذریعے  لاکھوں کی تعداد میں ان خصوصی خلیوں کی ایک فوج تشکیل دی گئی۔ ان ٹی سیلز کو یوہان کی رگوں میں ایک ٹیکے کے ذریعے داخل کیا گیا، جس سےیوہاں کو فوری طور پر مختلف وائرسز سے تحفظ حاصل ہو گیا۔ ڈاکٹر کیلر کا کہنا تھا کہ اب یوہان کے پاس اپنے بھائی کا مدافعتی نظام موجود ہے۔ یوہان کی والدہ نے تصدیق کی کہ یوہان اور تھامس کو اب ایک ہی وقت میں ایک ہی علامات جیسا نزلہ زکام لاحق ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا، ’’ میرے خیال میں اپنے بھائی سے بون میرو کے ذریعے بیماری سے استثنا حاصل کرنا زبردست بات ہے۔‘‘
یہ تھیراپی جس میں ڈونر یا اپنے تبدیل شدہ جینیاتی خلیوں کا استعمال کرتے ہوئے جسم کے دفاعی نظام کو مضبوط بنانا امینو تھیراپی کے نام سے جانا جاتا ہے، اب تک زیادہ تر سرطان کے خلاف استعمال کی گئی ہے لیکن ڈاکٹر کیلر کو امید ہے کہ یہ طریقہ علاج یوہان کی طرح کے کم زور مدفعاتی نظام کے حامل مریضوں میں وائرس کے خلاف دفاعی نظام بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔
اگر اس علاج میں درپیش مشکلات کی بات کریں تو اس عمل کی پیچیدگی اور اس پر خرچ ہو نے والے اخراجات ہیں جن کا تخمینہ کئی ہزار ڈالر تک کیا جا سکتا ہے۔ ان عوامل نے اس طریقہ علاج کو امریکا کے فقط تیس طبی مراکز تک محدود کر رکھا ہے۔

ع ش، ع ت (اے ایف پی، سی این اے)