1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سویڈن: تارکین وطن کے علاقوں میں پانچویں روز بھی احتجاج

24 مئی 2013

یورپی ملک سویڈن میں گزشتہ پانچ روز سے تارکین وطن کی اکثریتی آبادی والے علاقوں کے باسی اپنے ایک 69 سالہ ساتھی کی پولیس فائرنگ کے نتیجے میں ہلاکت پر سراپا احتجاج ہیں۔

https://p.dw.com/p/18dBm
تصویر: Reuters

ایک مثالی فلاحی ریاست سمجھے جانے والے اس ملک میں جاری اس صورت حال نے خطے میں ایک نئی مشکل کی جانب اشارہ کیا ہے۔ سویڈن کی 95 لاکھ کے لگ بھگ آبادی میں قریب 15 فیصد لوگ ایسے ہیں جو دوسرے ممالک سے آ کر وہاں آباد ہوئے ہیں یا جن کا تعلق ایسے تارکین وطن کی نئی نسل سے ہے۔ واضح رہے کہ محض گزشتہ برس سویڈن نے چوالیس ہزار مزید لوگوں کو اپنے ہاں سیاسی پناہ دی تھی۔ ان میں سے اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے اپنے ممالک جنگ سے تباہ ہو چکے ہیں، جیسے کہ عراق، صومالیہ، سابق یوگوسلاویہ، افغانستان اور شام۔

جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب دارالحکومت اسٹاک ہولم کے نواح میں تارکین وطن کی زیادہ آبادی والے مضافاتی علاقے Rinkeby میں ہونے والے ان فسادات کے دوران مزید کم از کم چھ گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ سویڈش نیوز ایجنسی TT نے پولیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ان گاڑیوں کے نذر آتش کیے جانے کے وقت وہاں 300 سے لے کر 500 تک مظاہرین جمع تھے۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر مظاہرین کو متعصبانہ انداز میں گالیاں دیں۔

اسٹاک ہولم میں ان مظاہروں کی وجوہات کے حوالے سے مبصرین کی رائے منقسم ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ اُس 69 سالہ شخص کی پولیس فائرنگ سے ہلاکت ان مظاہروں کا سبب ہے، جس نے خود کو ایک اپارٹمنٹ میں بند کر رکھا تھا اور کھڑکی میں تلوار لہراتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ بعض کا البتہ خیال ہے کہ اسٹاک ہولم کے جنوبی اور مغربی علاقوں کے نوجوانوں کی تنہائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اس صورت حال کے پیچھے کارفرما اہم عوامل ہیں۔

یورپ میں سماجی انضمام کے سلسلے میں کام کرنے والی ماہر نینا ایڈسٹورم کے بقول اسٹاک ہولم میں معاشی ناہمواری بڑھ رہی ہے، ’’وہاں بہت سے بے روزگار اور پریشان نوجوان ہیں۔ اس لیے میں یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر حیران نہیں ہوں۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مظاہروں میں شریک نوجوانوں کو سرگرم سیاسی کارکن سمجھنا غلطی ہوگا۔

اعداد و شمار یہ ثابت کرتے ہیں کہ سویڈن کے مقامی شہریوں کے طرز زندگی اور بڑھتی ہوئی تارکین وطن کی آبادی کے طرز زندگی میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ اسٹاک ہولم میں رہنے والے ایک ایرانی نژاد شہری شاہین اکبری نے بتایا کہ مظاہرین کا اس طرح پر تشدد احتجاج قابل افسوس ہے۔ ان کے بقول تارکین وطن کے علاقوں میں صورتحال بالخصوص گزشتہ پانچ سال میں بہت بدل گئی ہے۔ ’’پہلے ہمارے سویڈش دوست ہوا کرتے تھے، ہم ایک ساتھ فٹ بال کھیلا کرتے تھے، ایک ساتھ اسکول جاتے تھے اور وہ ہمارے سماجی انضمام میں مدد کرتے تھے، دوستوں کے توسط سے ملازمتیں بھی ملتی تھیں مگر اب ایسا نہیں رہا۔ اب ہم اپنے علاقوں میں بند ہوکر رہ گئے ہیں۔‘‘

سویڈش وزیر اعظم رائن فَیلڈ نے البتہ امید ظاہر کی ہے کہ اس مشکل گھڑی سے ملک کامیابی سے گزر جائے گا۔ انہوں نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ فراخدل ہے اور طویل المدتی حوالے سے یہی اس ملک کی کامیابی کا راز ہے۔

(sks/mm(AP