1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈانی صدر عمر البشیر عوامی احتجاج کا بوجھ برداشت نہ کر سکے

11 اپریل 2019

سوڈانی فوج نے تیس برس تک منصب صدارت پر براجمان رہنے والے عمر البشیر کو ہٹا دیا ہے۔ وہ اس وقت فوج کی زیرحراست ہیں۔ انہیں گزشتہ برس دسمبر میں شروع ہونے والی عوام کی پرزور عوامی تحریک کا سامنا تھا۔

https://p.dw.com/p/3Gauu
Sudan Proteste gegen Omar Al-Bashir
تصویر: Reuters

سوڈان کے وزیر دفاع عود محمد احمد ابن عوف نے ملکی میڈیا پر بتایا ہے کہ عمر البشیر کو منصب صدارت سے فوج نے ہٹانے کے علاوہ اُن کی حکومت بھی ختم کر دی ہے۔ وزیر دفاع نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت فوج نے البشیر کو گرفتار کر کے ایک محفوظ مقام پر رکھا ہوا ہے۔ جمعرات گیارہ مارچ کو ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے یہ پہلا بیان جاری کیا گیا ہے۔

وزیر دفاع نے بتایا کہ ملٹری کونسل نے ملکی انتظام دو برس کے لیے سنبھال لیا ہے اور اس کے اختتام پر آزاد اور شفاف انتخابات کرائے جائیں گے۔  سوڈان میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ساتھ میں رات کا کرفیو بھی لگا دیا گیا ہے۔ ملکی پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ تمام وزارتیں بھی تحلیل کر دی گئی ہیں۔ حکومتی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد فوج کے ایک دستے نے عمر البشیر کی سیاسی جماعت نیشنل کانگریس پارٹی سے وابستہ ایک مذہبی و سیاسی گروپ ’اسلامک موومنٹ‘ کے دفتر پر چھاپہ مار کر تلاشی بھی لی ہے۔ سکیورٹی ایجنسی نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا بھی کر دیا ہے۔

Sudan Proteste gegen Präsident Omar Al-Bashir
عمر البشیر کے اقتدار چھوڑنے کے بعد عام لوگو نے فوجیوں کو گلے لگانا شروع کر دیاتصویر: Reuters

قبل ازیں خرطوم میں دو سینیئر سول اور فوجی حکومتی ذرائع نے نیوز ایجنسی اے پی کو اپنی اپنی شناختیں مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ ملکی فوج کی اعلیٰ کمان نے عمر البشیر کو منصب صدارت چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ابھی تک مکمل حالات واضح نہیں کہ فوج کا اُن کے ساتھ سلوک کس قسم کا رہا تھا۔ حکومتی ذرائع بھی البشیر کے بارے میں کوئی مصدقہ معلومات دینے سے گریز کر رہے ہیں۔

صوبائی وزیر عادل محجوب حسین کے مطابق سوڈانی فوج میں مشاورت جاری ہے کہ حکومتی کنٹرول کون سنبھالے گا؟ اس مناسبت سے فوج کی جانب سے جمعرات گیارہ مارچ کو کسی وقت اعلان کیا جائے گا۔ عمر البشیر کے منصبِ صدارت سے فارغ ہونے کی خبر کے بعد خرطوم کی سڑکیں عام لوگوں سے بھر گئیں اور وہ فرط مسرت کے اظہار کے طور پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے رہے۔

یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے کہ سوڈان میں گیارہ مارچ کی صبح سے ہی غیرمعمولی ہلچل پائی جا رہی تھی۔ علی الصبح سوڈانی دارالحکومت خرطوم میں وزارت دفاع کے کمپلیکس کے باہر فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق خرطوم کی اہم سڑکوں اور پلوں پر بھی فوجی دستے تعینات ہیں۔

Sudan President Omar Hassan al-Bashir
عمر البشیر نے جون سن 1989 میں ایک فوجی بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالا تھاتصویر: Reuters/Z. Bensemra

یہ امر اہم ہے کہ فوج کی تعیناتی کے وقت بھی ہزاروں سوڈانی مظاہرین وزارت دفاع کی عمارت کے باہر کئی دنوں سے دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ اس کا ابھی نہیں بتایا گیا کہ عمر البشیر کے مستعفی ہونے کے بعد یہ مظاہرین واپس لوٹ گئے ہیں یا ابھی کسی واضح اعلان کے منتظر ہیں۔ یہ ہزارہا شہری ملکی صدر عمر البشیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

 سرکاری میڈیا پر یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ملکی مسلح افواج کی جانب سے جلد ہی ایک اہم اعلان کیا جانے والا ہے۔ اس اعلان کے بعد سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ عمر البشیر کی حکومت ختم ہو گئی ہے اور ان کا یہ تاثر درست ثابت ہوا۔