1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوڈان ميں عوام اپنے ہی ملک کی فوج کے سامنے کيوں کھڑے ہيں؟

عاصم سلیم اے پی کے ساتھ
1 جولائی 2019

سوڈان ميں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ آج پير يکم جولائی کو بھی جاری ہے۔ ملکی عوام عبوری فوجی کونسل کی حکمرانی کا خاتمہ اور سويلين قوتوں کی بالا دستی چاہتے ہيں ليکن کيا ايسا ہونے ديا جائے گا؟

https://p.dw.com/p/3LP7M
Zehntausende Menschen marschieren in Khartoum auf den Straßen
تصویر: Reuters/U. Bektas

سوڈان ميں گزشتہ اختتام ہفتہ پر ہونے والے ملک گير مظاہروں ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر دس ہو گئی ہے۔  قبل ازيں  وزارت صحت نے ہلاک شدگان کی تعداد سات بتائی تھی تاہم پير کو ام درمان شہر سے ملنے والی تين لاشوں کے بعد يہ تعداد دس تک پہنچ گئی۔ ان مظاہروں کے دوران چھڑپوں ميں دو سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اپوزيشن نے احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی ذمہ داری فوجی کونسل پر عائد کی ہے جبکہ فوج نے ايک بيان ميں قصور وار مظاہرين کو ہی قرار ديا ہے۔

 دريں اثناء سويلين حکومت کی بالادستی اور اقتدار سے فوج کو ہٹانے کے ليے سوڈان ميں جاری سلسلہ وار احتجاج يکم جولائی کو بھی جاری ہے۔ ام درمان ميں سينکڑوں لوگ جمع ہو رہے ہيں، جنہوں نے متعدد مرکزی شاہراہيں بلاک کر دی ہيں۔ وہاں يہ احتجاج اور شديد عوامی غم و غصہ پير کو ملنے والی تين لاشوں کے بعد شروع ہوا۔ تيس جون کو سوڈانی دارالحکومت خرطوم سميت کئی بڑے شہروں ميں وسيع تر احتجاجی مظاہرے کيے گئے۔ ان مظاہروں ميں شريک افراد کی تعداد ہزاروں ميں تھی۔

Sudan Khartum | Anhänger von General Abdel Fattah al-Burhan
تصویر: Getty Images/AFP/A. Shazly

سوڈان ميں در اصل ہو کيا رہا ہے؟

سوڈان ميں تيس برس قبل اسلام پسندوں کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سابق صدر عمر البشير کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ عمر البشير سن 1989 سے سوڈان پر حکمرانی کرتے آئے تھے۔ اس دوران ملک کی تاريخ ميں کئی بحران آئے ليکن اس وقت جاری بحران در حقيقت پچھلے سال کے اواخر سے شروع ہوا۔ ناقص اقتصادی صورتحال اور افراط زر کی وجہ سے انيس دسمبر 2018ء کو سوڈان کے کئی شہروں ميں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔ ابتداء ميں مظاہرين نے معاشی اصلاحات کا مطالبہ کيا مگر جلد ہی البشير کے مستعفی ہونے کے مطالبات بھی زور پکڑتے گئے۔ احتجاجی مظاہرين کے خلاف طاقت کے استعمال پر رواں سال فروری ميں بين الاقوامی برادری نے شديد تحفظات کا اظہار کيا۔ بعد ازاں سابق صدر نے ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے حکومت تحليل کر دی اور بيشتر انتظامات فوج اور انٹيليجنس کے حوالے کر ديے گئے۔

پھر اپريل کی چھ اور سات تاريخ کو ملک گير سطح پر احتجاج کيا گيا۔ گيارہ اپريل کو فوج نے عمر البشير کو برطرف کر ديا ليکن يہ معاملہ یہیں ختم نہيں ہوا۔ احتجاجی جاری رہا ليکن اب مظاہرين اقتدار پر سے فوجی کونسل کے قبضے کی مخالفت ميں باہر نکلے۔ حکومت کے قيام کے ليے اپريل اور مئی ميں سويلين اپوزيشن اور عبوری فوجی کونسل (TMC) کے مابين مذاکرات ہوئے، جو بے نتيجہ رہے۔ مذاکرات ختم ہونے کی وجہ جون کی تين تاريخ کو دارالحکومت خرطوم ميں مظاہرین کے خلاف خونريز کريک ڈاؤن بنا۔ فوجی کونسل نے مظاہرين کے خلاف طاقت کا شديد استعمال کيا، جس ميں 118 افراد ہلاک ہوئے۔ فوج کے اس عمل کے بعد سے سوڈان ميں وقفے وقفے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جس ميں مظاہرين کا مطالبہ ايک ہی ہے، فوج کی اقتدار سے مکمل عليحدگی اور سويلين قوتوں کی بالا دستی۔