1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سويڈن : مہاجر کے ہاتھوں لڑکی کے قتل کے بعد کشيدگی

عاصم سليم2 فروری 2016

سويڈن کے ايک مہاجر کيمپ ميں ايک مقامی رضاکار لڑکی کی ہلاکت کے بعد گزشتہ ہفتے کے اختتام پر چہروں پر ماسک پہنے نامعلوم افراد نے بظاہر تارک وطن دکھائی دینے والے افراد کو نشانہ بنايا۔

https://p.dw.com/p/1HnSn
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ericsson

يورپی رياست سويڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم ميں گزشتہ جمعے کی شب تقريباً پچاس سے ايک سو کے درميان افراد نے چہروں پر ماسک پہن کر بظاہر غير ملکی دکھنے والے افراد کو مارا پيٹا اور پرچے تقسيم کيےجن پر لکھا ہوا تھا، ’شمالی افريقہ ميں سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے ليے ايسی سزا جس کے وہ حقدار ہيں۔‘ يہ واقعہ شہر کے مرکزی علاقے سرگلز ٹورگ پلازہ پر پيش آيا۔

ان ’نسل پرست‘ حملوں کی ويڈيوز پر بہت سے مقامی شہری حيرت زدہ رہ گئے۔ چند ديگر يورپی رياستوں کی طرح سويڈن کو بھی ريکارڈ تعداد ميں پناہ گزينوں کی آمد کے سبب ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔ مقامی افراد ميں ايک طرف تو انسانی ہمدردی کا جذبہ اور مستحق پناہ گزينوں کی مدد کی خواہش پائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب يہ احساس بھی موجود ہے کہ ملک کا بنيادی ڈھانچہ فی کس آمدنی کے لحاظ سے يورپی يونين ميں کسی بھی اور ملک کے مقابلے ميں زيادہ مہاجرين کو پناہ دينے کے قابل بھی رہ سکے گا۔

سويڈن کے ايک اخبار ’ايکسپريسن‘ نے اتوار کو سرخی لگائی، ’سويڈن ميں کيا ہو رہا ہے؟‘ اس عنوان تلے رپورٹ ميں متعدد مسائل کا ذکر کيا گيا ہے، جن ميں مہاجر کيمپوں کو نذر آتش کيے جانے کے واقعات کے علاوہ معاشرتی اور مذہبی کشيدگی کے واقعات شامل ہيں۔ مقامی ذرائع ابلاغ نے زيادہ تر مسائل کا ذمہ دار سوشل ڈيموکريٹ وزير اعظم اسٹيفان لووین کو قرار ديا ہے۔ ميڈيا کے مطابق حکومت نے پناہ گزينوں سے منسلک مسائل کو کم کر کے بيان کيا ہے۔

بائيس سالہ اليکزينڈرا ميژر
بائيس سالہ اليکزينڈرا ميژرتصویر: picture-alliance/dpa/L.Filipovic

چھبيس جنوری کے روز چھپنے والے ايک ايڈيٹوريل ميں يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ جرائم ميں ملوث پناہ گزينوں کو ملک بدر کر ديا جائے۔ يہ تجويز بائيس سالہ اليکزينڈرا ميژر کے قتل کے ايک روز بعد چھاپی گئی تھی۔ ميژر لبنانی نژاد ايک سماجی کارکن تھيں، جنہيں مولنڈال شہر کے ايک مہاجر کيمپ ميں ايک پندرہ سالہ پناہ گزين نے اس وقت ہلاک کر ديا، جب انہوں نے نابالغوں کے اس مرکز ميں لڑائی رکوانے کی کوشش کی۔

سويڈش حکام کو پہلے ہی سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے، جن ميں ريئل اسٹيٹ کی آسمان کو چھوتی قيمتيں، رہائش کے ليے مکانوں کی کمی، اساتذہ اور نرسوں کی انتہائی کم آمدنياں اور نرسنگ ہومز کی قلت شامل ہيں۔ ريکارڈ تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب يہ مسائل اور بھی گھمبير ہوتے جا رہے ہیں۔