1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوشل میڈیا پر خواتین سپورٹ گروپس کتنے محفوظ، کتنے خطرناک؟

29 فروری 2024

میں فیس بک پر خواتین کے لیے بنائے گئے بہت سے گروپس کا حصہ ہوں۔ ان گروپس کا مقصد خواتین کو ایسے پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے، جہاں وہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہ سکیں اور ایک دوسرے کی مدد سے اپنی زندگی کے مسائل حل کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/4d14U
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

ان میں سے بہت سے گروپس خواتین کے لیے بہت کام کر رہے ہیں۔ کبھی کسی کو ہنگامی طور پر مدد درکار ہو تو ان گروپس میں موجود خواتین آگے بڑھ کر مدد مانگنے والی خاتون کی مدد کرتی ہیں۔ اسی طرح یہ گروپس خواتین کو گھریلو سطح پر شروع کیے جانے والے اپنےکاروبار آگے بڑھانے میں بھی مدد دیتے ہیں۔

 گھر بیٹھ کر تجارت کرنے والی خواتین ان گروپس میں اپنے اشیا کی تشہیر کرتی ہیں اور دیگر خواتین اپنی ضرورت کے حساب سے ان  سے مستفید ہوتی ہیں۔

تاہم کچھ گروپس ایسے بھی ہیں، جو اپنی ہی دنیا بنا کر بیٹھے ہیں۔ ان گروپس میں صرف مخصوص خواتین کو ہی پوسٹ کرنے کی اجازت ہے۔ یعنی ان گروپس کا اپنا ایک ایلیٹ سرکل ہے۔ وہی سرکل اس گروپ میں متحرک رہتا ہے اور اپنی اپنی نفرادی ٹائم لائنز پر بھی ایک دوسرے کی ہی تعریف کرتا ہے۔ باقی ممبران کا مقصد ان کی پوسٹس پڑھنا، انہیں لائک کرنا اور ان پر تبصرے کرنا ہے۔ 

ایسے گروپس کے جواب میں بھی کچھ گروپ بنائے گئے ہیں، جہاں سب کو پوسٹ کرنے کی اجازت ہے۔ ان گروپس میں پچھلے گروپس کے بھی کچھ ممبران شامل ہیں۔ اکثر ان گروپس میں دیگر گروپس کی برائیاں بھی ہو رہی ہوتی ہیں، جن کے سکرین شاٹ لے کر متعلقہ گروپس میں لگائے جاتے ہیں یوں ان گروپس میں ہر وقت ایک ہنگامہ سا جاری رہتا ہے۔ 

ان گروپس کی افادیت سے کوئی انکار نہیں لیکن جب ان گروپس میں خواتین کو انتہا پسندانہ مشورے دیے جاتے ہیں تو تھوڑی سی پریشانی ہونے لگتی ہے۔ اول تو سوشل میڈیا پر انجان لوگوں سے اپنی زندگی کے انتہائی نجی معاملوں پر مشورے مانگنے ہی نہیں چاہیے۔ ہمیں بھی سوشل میڈیا پر کسی کے نجی معاملے کو اپنے حالات و واقعات کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ 

ہمیں بھی مشورہ اسے دینا چاہیے، جس کی زندگی ہم مکمل طور پر جانتے ہوں جیسے کہ ہمارے بہن بھائی یا بچپن کے دوست اور ساتھی۔ اس میں بھی احتیاط برتنی چاہیے اور انہیں کہنا چاہیے کہ وہ کسی بھی فیصلے پر پہنچنے سے پہلے اپنے بڑوں اور کسی پروفیشنل سے ضرور مشورہ کر لیں۔ 

اکثر خواتین ان گروپس میں اپنے شوہروں کے رویوں کی شکایت کرتی ہیں۔ انہیں کچھ خواتین فوراً طلاق لینے کا مشورہ دیتی ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک خاتون نے ایسے ہی ایک گروپ میں لکھا کہ ان کی نئی نئی شادی تھی۔ شوہر سے کسی بات پر جھگڑا ہو گیا۔ ان کا دل بے حد دکھا۔ انہوں نے اپنی کچھ دوستوں سے بات کی۔ پھر کچھ گروپس میں بھی معاملہ پوسٹ کر دیا۔ فوراً طلاق کے مشورے ملنے لگے۔ انہوں نے ان مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اپنے شوہر سے طلاق لے لی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ان کے جذبات سنبھلے تو انہیں احساس ہوا کہ وہ معاملہ تو کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر وہ ذرا سا صبر یا خاموشی اختیار کرتیں تو اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزار سکتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے گروپ میں موجود خواتین سے درخواست کی کہ وہ کسی کی زندگی کو مکمل طور پر جانے بغیر اسے انتہائی مشورے نہ دیا کریں۔ 

 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان گروپس کے ممبران کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بہت سے خاندانوں کی کئی خواتین ان گروپس کا حصہ ہیں۔ اب اکثر ہی ان گروپس میں بغیر شناخت کے پوسٹس ہوتی ہیں، جن کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ اس گروپ میں میرے رشتے دار بھی شامل ہیں، اس لیے میں پوسٹ اپنے نام سے نہیں کر رہی۔

 خواتین بغیر شناخت کے پوسٹ تو کر دیتی ہیں لیکن ان کے حالات و واقعات ان کی شناخت ظاہر کر ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ ایک خاتون نے پوسٹ کی کہ اس گروپ میں میری کچھ رشتے دار موجود ہیں اس لیے میں یہ پوسٹ اپنے نام سے نہیں کر رہی۔ میں فلاں شہر میں رہتی ہوں۔ دو دن پہلے میرا بیٹا پیدا ہوا۔ میری نند اس کا نام رکھنے پر بضد ہے۔ حالانکہ میں نے اسے کہا کہ میں اس کا نام پہلے ہی سوچ چکی ہوں لیکن وہ اپنی ضد پر قائم ہے۔ میری ساس بھی اس کی طرف داری کر رہی ہیں۔ میرے سسر حیات نہیں ہیں، شوہر اپنی امی اور بہن کے سامنے کچھ نہیں کہتے۔

تھوڑی دیر بعد اس پوسٹ پر نند کا تبصرہ آیا کہ بھابھی آپ اپنے بچے کا نام اپنی مرضی سے رکھ لیں۔

ایسی پوسٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گروپس اب محفوظ نہیں رہے۔ یہ خواتین کو ان کے مسائل کا ایک وقتی حل فراہم کر رہے تھے، جو اب خواتین کے کسی کام کا نہیں رہا۔ خواتین کو اپنے مسائل کے مستقل حل چاہیے جو حکومت ہی قانون سازی کے ذریعے ہی فراہم کر سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بڑے پیمانے پر خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی مہم کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہماری خواتین اگلی کئی دہائیوں تک ان مسائل سے باہر نہیں نکل سکیں گی۔ ان گروپس کے ایڈمنز کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گروپس کی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں۔ اپنے گروپس کو سب کے لیے محفوظ بنائیں۔ وہاں سب کو بات کرنے کی آزادی دیں لیکن انتہا پسندانہ مشورے دینے والوں کو ان کے گھر کی راہ دکھائیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔