سوات میں طالبان مزید متحرک، حکومتی تشویش
22 اپریل 2009سوات، دیراور بونیر میں سرکاری اہلکاروں کے اغواء اورطالبان عسکریت پسندوں کی خلاف آئین سرگرمیوں کے ہی باعث دن بھر وفاقی اورصوبائی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط کا سلسلہ جاری رہا جس میں تازہ ترین صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
انتہائی اعلیٰ سطحی روابط کا یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہا کیونکہ کراچی سے پشاور اور لاہور تک نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن سمیت اکثر سیاسی قوتوں نے سواتی طالبان کے مطالبات اور طرز عمل پرتشویش اور تحفظات کا اظہارکیا ہے ۔سیاسی اورعسکری قیادت کی انہی صلاح مشوروں کے حوالے سے مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا : ’’ابھی تک یہ ایک ٹرانزیشن کا فیز ہے ابھی تک اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اس کا منفی اثر ہوتا ہے یا مثبت اثر ہوگا یہ ہم دیکھ رہے اور اس کا بغور جائزہ لے رہے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ اس وقت صورت حال کو مکمل طور پرتسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
قبل ازیں یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی زیر بحث رہا وزیر اعظم یوسف رضا نے اجلاس کے بعد واضح کیا کہ آئین اور ریاست سے متصادم کسی بھی معاہدے یا تحریک کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔
’’ہم ملک کے خیر خواہ ہیں ہم نے ملک کو بنایا ہے اوراس کی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے صوبے کی عوام کے مینڈیٹ کا مثبت جواب دیا ہے اگر علاقے میں امن قائم نہیں ہوتا تو ہم دوسری طرح سوچنے پر مجبورہوں گے۔‘‘
مبصرین کے مطابق سیاسی اور عسکری قیادت نے اس امید پر نظام عدل ریگولیشن کو قبول کیا تھا کہ شایداس کے ذریعے عسکریت پسندی پرقابو پایا جا سکے تاہم حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ عسکریت پسندی میں کوئی کمی کی بجائے طالبان گروہ نظام عدل کو اپنا اثر و رسوخ دوسرے علاقوں تک پھیلانے میں استعمال کر رہا ہے۔