سوات مہاجرین کو غذائی قلت کا سامنا
29 مئی 2009اقوام متحدہ کے ہنگامی امداد کے امور کے رابطہ کار جان ہولمس کے مطابق پاکستان کو اس ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے فوری طور سے کم سے کم 543 ملین ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ اب تک عالمی برادری کی طرف سے محض 118 ملین ڈالر کی امداد کا یقین دلایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندوں کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے اندر وادی سوات سے نقل مکانی مزنے والوں کی تعداد تقریباً ڈھائی ملین ہے اور جن کی صورتحال تشویشناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ UNICEF ،پاکستانی دفتر خارجہ اور برطانوی امدادی تنظیم Merlin کے تعاون سے ہنگامی امداد پہنچانے والے معروف جرمن ادارے یوہانیٹر نے پشاور اور چارسدہ کے کیمپوں میں مقیم 80 ہزار سے زائد افراد کو غذا فراہم کرنے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ بے گھر ہو نے والے ان افراد کو غذا کی قلت اور گرمی کی شدت کے باعث گو نا گوں بیماریوں کے خطرات لاحق ہیں۔
جرمن ادارے یوہانیٹر کے اسلام آباد دفتر کے ڈائریکٹر نصیر احمد کاکڑ نے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ انکا ادارہ اگلے چند ہفتوں کے اندر شمالی پاکستان سے بے دخل ہونے والے تقریباً 80 ہزار افراد جن میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، کو اضافی غذا اور پینے کے صاف پانی فراہم کرنے سے متعلق دو پروجیکٹس شروع کر رہا ہے۔ یہ پشاور اور چار سدہ کے پناہ گزینوں کے لئے ہے۔
ہنگامی امداد کے جرمن ادارے یوہانیٹر کے اسلام آباد دفتر کے ڈائریکٹر نصیر احمد کاکڑ کے مطابق بجلی کے بحران اور شدید گرمی کے سبب سوات اور دیگر شمالی علاقوں سے آئے ہوئے پناہ گزینوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان ممکنہ امدادی کاروائیاں کر رہی ہے تاہم غذا اور دیگر ضروری اشیاء کی قلت کے سبب وہ تمام متاثرین کو امداد نہیں پہنچا سکتی۔ کاکڑ نے بتایا کہ غذائی قلت کے شکار افراد کو اضافی غذا کے علاوہ ادویات، حفظان صحت سے متعلق ضروری معلومات اور مانع حمل کی ادویات اور اشیاء کی بھی ضرورت ہے جس کے لئے یوہانیٹر کی طبی موبائل ٹیم آئندہ ہفتوں اور مہینوں میں پناہ گزینوں کو کمک پہنچائے گی۔