سوات: معاہدہ عوام کے ساتھ کیا ہے طالبان کےساتھ نہیں، اے این پی رہنما
16 فروری 2009سرحد حکومت نے طالبان کے ساتھ اس معاہدے کو نظامِ عدل قرار دیا ہے۔ سرحد کے وزیرِ اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے معاہدے کے نفاذ کا اعلان سیاسی جماعتوں اور کلعدم عسکری تنظیم نفاذِ شریعتِ محمدی کے مابین ہونے والے ایک مشترکہ جرگے کے اختتام پر کیا۔ واضح رہے کہ سوات کا علاقہ مالاکنڈ ڈوژن میں آتا ہے اور یہاں طالبان عسکریت پسندوں اور پاکستانی افواج کے درمیان خاصے عرصے سے لڑائی جاری ہے۔
معاہدے کی رو سے طالبان دس روز کے لیے جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے ہیں اور پاکستانی حکّام کی کوشش ہے کہ عسکریت پسند مستقل طور پر ہتھیار پھینک دیں۔ وزیرِ اعلی سرحد کے مطابق معاہدے پر مکمل عمل درآمد ان علاقوں میں امن قائم ہونے کے بعد ہوگا۔ حکومتی اہلکار کافی عرصے سے طالبان رہنما ملّا صوفی محمّد کے ساتھ مذاکرت کر رہے تھے۔
معاہدے کے ناقدین کا موقف ہے کہ اس نوعیت کے معاہدے ماضی میں بھی کیے جاتے رہے ہیں مگر ان پر عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا۔ نہ صرف یہ، ان معاہدوں کے بعد طالبان عسکریت پسند ہر بار زیادہ طاقت ور ہوکر سامنے آتے رہے۔ ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکیولر جماعت کیوں کر مذہبی عناصر کے ساتھ نفاذِ شریعت کا معاہدے کرسکتی ہے۔ اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما امین خٹک نے ڈائچے ویلے اردو سروس کو بتایا کہ ان کی جماعت صوبے میں امن قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ معاہدہ نظامِ عدل ہے نہ کہ نظامِ شریعت۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوات میں ایک مدّت سے فوجی آپریشن جاری ہے مگر محض چند سو عسکریت پسند ہی اب تک مارے گئے ہیں جب کہ ان کی جماعت کی کوشش ہے کہ انتہا پسندوں اور اعتدال پسندوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جاسکے۔ ان کی رائے میں ملّا صوفی محمّد ایک اعتدال پسند رہنما ہیں۔
اے این پی کے رہنما امین خٹک کا یہ موقف بھی ہے کہ مذکورہ معاہدہ ان کی جماعت نے طالبان کے ساتھ نہیں بلکہ عوام کے ساتھ کیا ہے اور یہ کہ ’نظامِ عدل‘ کے زریعے ان علاقوں کے عوام کو جلد انصاف ملے گا۔
ایک سوال پر کہ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے افغانستان اور پاکستان کے لیے مقرّر کیے گئے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک کی چند روز قبل پشاور آمد اوراعلیٰ حکّام سے ملاقات کے بعد ہی طالبان کے ساتن ایسا معاہدے کیوں کر ممکن ہوا، امین خٹک نے کہا کہ اس بات سے رچرڈ ہالبروک کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ یہاں صرف علاقے کو سمجھنے کے لیے آئے تھے۔ امین خٹک کے مطابق اب پاکستانی حکّام اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ سابق صدر پرویز مشرّف کی اقتدار کو طول دینے کے لیے طالبان کو مضبوط کرنے کی پالیس کو ترک کرکے رچرڈ ہالبروک کو درست حقائق سے آگاہ کیا جائے۔