1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوائن فلو کا ہوّا کسی کو فائدہ پہنچانے کے لئے کھڑا کیا گیا؟ بحث کا آغاز

22 جنوری 2010

سوائن فلو کی وبا نے پوری دنیا کو خوف وہراس میں مبتلا کئے رکھا۔ مگر اب یہ اعتراضات سامنے آئے ہیں کہ سوائن فلو کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، جس کے باعث متعدد دوا ساز کمپنیوں کو بڑے بڑے مالی فوائد حاصل ہوئے۔

https://p.dw.com/p/Ledr
تصویر: AP

" دنیا کو اب سال 2009ء کی انفلوئنزا وبا کا سامنا ہے" عالمی ادارہ صحت کی ڈائریکٹر مارگریٹ چن نے گزشہ برس جون میں ان الفاظ کے ساتھ یہ ڈرامائی اعلان بھی کیا کہ وہ وبا جو بہت عرصے سے متوقع تھی اب اس کا آغاز ہوگیا ہے اور دنیا کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوجانا چاہیے۔ اُس وقت دنیا بھر میں اس کی وجہ سے لاکھوں اموات کا خدشہ ظاہر کیا گیا، جبکہ اب 10 ماہ گزرنے کے بعد تک اس بیماری سے ہونے والی ہلاکتوں کی کل تعداد 13 ہزار کے قریب ہے، جو کہ موسمی فلو سے ہونے والی سالانہ اموات سے بھی کہیں کم ہے۔

عالمی ادارہء صحت پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اُس نے اِس وبا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ اِس ادارے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل کیجی فاکودہ نے پیر 18 جنوری سے جنیوا میں منعقدہ کانفرنس میں ان الزامات کی نفی کرتے ہوئے کہا، "کیا یہ واقعی وبا ہے؟ جی ہاں۔ کچھ لوگوں کی طرف سے لگایا گیا یہ الزام سائنسی اور تاریخی لحاظ سے غلط ہے کہ H1N1 وبا محض ایک فریب ہے۔"

WHO erklärt Schweinegrippe zur Pandemie
یہ اعتراض کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ہاتھوں استعمال ہوئی، اس عالمی ادارے کی ساکھ کے لئے تباہ کن ہے۔تصویر: AP

اس کے باوجود بہت سے یورپی سیاستدانوں کے ذہن میں مختلف سوالات موجود ہیں۔ کیونکہ یورپی ہسپتال سوائن فلو کے خطرے سے نمٹنے کے لئے علاج معالجے کے حوالے سے اپنی ترجیحات میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لائے۔ اس کے علاوہ سوائن فلو سے بچاؤ کے لئے کروڑوں کی تعداد میں ویکسین بھی خریدی گئیں، جنہیں استعمال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ویکسین کی تیاری اور اس کی خرید پر یورپی یونین نے بھی کروڑوں یورو خرچ کئے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ پال فلِن Paul Flynn اس بات کے خواہاں ہیں کہ اس وبا سے نمٹنے کے معاملے کی تحقیق کی جائے، " ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس وبا کے خطرے کا درجہ بڑھانے کا فیصلہ کس نے کیا تھا؟ کیا یہ واقعی طبی وجوہات پر کیا گیا تھا یا اس کا مقصد صرف دواساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا تھا؟ سوائن فلو اور اس سے قبل ایوین فلو کے بارے میں جس طرح خطرات بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے اس کے بعد کوئی بھی مستقبل میں کسی خطرے کی صورت میں ڈبلیو ایچ او پر یقین نہیں کرے گا۔"

یہ اعتراض کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بڑی دوا ساز کمپنیوں کے ہاتھوں استعمال ہوئی، اس عالمی ادارے کی ساکھ کے لئے تباہ کن ہے۔ کیونکہ یہ بات بہرحال ایک حقیقت ہے کہ وبائی امراض سے متعلق اس عالمی ادارے کے کچھ سابق ماہرین اب بڑی بڑی دوا ساز کمپنیوں سے وابستہ ہیں۔ تاہم کیجی فاکودہ کا کہنا ہے کہ مفادات کے تصادم کے حوالے سے عالمی ادارہء صحت کے قوانین بے حد واضح ہیں، " عالمی ادارہء صحت کو نہ صرف اپنے پیشہ ورانہ اور مالی معاملات کی بجاآوری کے لئے ماہرین کی رائے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے مالی معاونت اور ماہرانہ رائے کے لئے بھی عالمی ادارہء صحت کو ان اداروں کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے۔"

تاہم لگتا ہے کہ یہ بحث اب آسانی سے ختم ہونے والی نہیں ہے۔ آنے والے ہفتے میں فرانسیسی شہر سٹراسبُرگ میں سوائن فلو کے حوالے سے یورپی کونسل کی ایک ایمرجنسی میٹنگ ہو رہی ہے۔ عالمی ادارہء صحت کے حکام اور ویکسین تیار کرنے والے اداروں کے سربراہ بھی اس میٹنگ میں شرکت کریں گے۔

رپورٹ : افسر اعوان

ادارت : امجد علی