1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سندھ حکومت اور آئی جی کے درمیان تنازعہ طول پکڑ گیا

19 جنوری 2020

حکومت سندھ اور پولیس کے درمیان موجودہ سرد جنگ کا آغاز تین ماہ قبل ہوا جو اب عروج پر پہنچ چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/3WQbb
Pakistan Kaleem Imam Generalinspektor der Polizei Sindh
تصویر: picture-alliance/Zumapress/PPI

 تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ چار برسوں میں تیسری مرتبہ صوبائی حکومت اور پولیس سربراہ کے درمیان پیدا ہونے والا تنازعہ محکمے کی کارکردگی پر مفنی انداز سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ جبکہ حزب اختلاف کی جماعتیں خصوصاﹰ تحریک انصاف کھل کر آئی جی سندھ کی حمایت کر رہی ہیں۔

انسپکٹر جنرل سندھ پولیس ڈاکٹر کلیم امام کراچی کی متوسط آبادی عزیز آباد سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن سول سروس میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد وہ پہلی مرتبہ صوبہ سندھ میں تعینات ہوئے ہیں۔

کلیم امام کو 2018ء میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کی منظوری سے اس صونے کا آئی جی تعینات کیا تھا لیکن حکومت سندھ اور پولیس کے درمیان موجودہ سرد جنگ کا آغاز تین ماہ قبل  ہوا جو اب عروج پر پہنچ چکی ہے۔

ایک زیر حراست مبینہ دہشت گرد کا وزیر اعلٰی سندھ سے ملاقات سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والا بیان، ایس ایس پی عمر کورٹ اعجاز شیخ پر گورنر سندھ عمران اسماعیل کی جانب سے جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کا الزام اور وفاق سے تبادلے کی شکایت، ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کا پریس کلب میں مبینہ متنازعہ خطاب، اور پھر صوبائی وزیر تیمور تالپور کے خلاف مقدمہ کے اندارج نے اس جھگڑے کو مزید بڑھایا۔

وزیر اعلٰی سندھ مراد علی شاہ کی طرف سے رواں ہفتے چند گھنٹے کے نوٹس پر کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں آئی جی کلیم امام کو عہدے سے برطرف کر کے ان کی خدمات وفاق کے سپرد کرنے کی منظوری دی گئی اور اگلے ہی روز چیف سیکرٹری نے وفاق کو تین افسران کے نام بھی تجویز کر دیے گئے۔

Pakistan Wechsel an der Spitze der Landesregierung von Sindh
''جب جب پولیس میں بھرتیوں کا معاملہ آتا ہے اور بات میرٹ پر بھرتیوں کی ہوتی ہے تو سندھ حکومت اور آئی جی کے درمیان معاملات بگڑ جاتے ہیں۔‘‘تصویر: Landesregierung/Sindh, Pakistan

تاہم سندھ حکومت کے ترجمان مُرتضٰی وہاب کہتے ہیں کہ آئی جی کی اچانک تبدیلی کا تاثر غلط ہے۔ وزیر اعلٰی سندھ گزشتہ ماہ وزیر اعظم سے ملاقات میں انہیں اس حوالے سے اعتماد میں لے چکے ہیں اور کابینہ کے فیصلے سے بھی وزیر اعظم ہاؤس کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

مرتضٰی وہاب کہتے ہیں، ''کراچی سمیت سندھ میں جرائم بڑھ رہے ہیں، نوجوان لڑکیاں اغوا ہو رہی ہیں جنہیں تاوان ادا کر کے انہیں رہا کرانے پر مجبور ہیں، مغویوں کے اہل خانہ پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، اس صورت حال کا سامنا سندھ حکومت کو کرنا پڑتا ہے، وزیر اعلٰی سندھ نے تحفظات کے باوجود آئی جی سندھ کو موقع دیا کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرلیں لیکن وہ ناکام رہے۔‘‘

مبصرین کے مطابق سندھ حکومت دراصل دیگر صوبائی حکومتوں کی طرح آئی جی کو اپنے تابع رکھنا چاہتی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دیگر صوبوں میں تحریک انصاف یا ان کے اتحادیوں کی حکومت ہے، وزیر اعلٰی پنجاب ڈیڑھ برس میں چار آئی جی تبدیل کرچکے ہیں، کے پی کے میں ایسا دو مرتبہ ہوا ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت میں تو وفاقی وزیر اعظم سواتی کے گھر میں گائے گھسنے پر آئی جی تبدیل ہوچکا ہے۔

سینیئر صحافی کاشف فاروقی کہتے ہیں، ''جب جب پولیس میں بھرتیوں کا معاملہ آتا ہے اور بات میرٹ پر بھرتیوں کی ہوتی ہے تو سندھ حکومت اور آئی جی کے درمیان معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ موجودہ آئی جی سندھ کا بھی ماضی کے دو آئی جیز کی طرح میرٹ پر بھرتیوں کا اسرار ہے جو سندھ حکومت کو بظاہر پسند نہیں آرہا لہٰذا آئی جی کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘

اس مرتبہ سندھ حکومت کے نشانے پر کلیم امام ہیں مگر اس بار اس جھگڑے میں تحریک انصاف بھی کود پڑی ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو کہا گیا ہے کہ آئی جی کی تبدیلی کے معاملے پر عدالت سے رجوع کیا جائے گا تاہم سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم نے اس معاملے پر آئی جی کی حمایت میں بیان جاری کرنے پر اکتفا کیا ہے۔

کراچی پر سیاست کی جا رہی ہے، فہیم الزماں

سندھ حکومت کے اقدامات اور نیوز کانفرنسز کے جواب میں پولیس کی جانب سے ایس ایس پی شکار پور ڈاکٹر رضوان کی جانب سے ڈی آئی جی لاڑکانہ کو بھیجی گئی ایک خفیہ رپورٹ ذرائع ابلاغ میں لیک کردی گئی جس میں انہوں نے نہ صرف صوبائی وزیر امتیاز شیخ بلکہ ان کے بھائی اور بیٹے پر بھی جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی جیسے سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔

امتیاز شیخ تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کابینہ اجلاس میں وزیر اعلٰی اور آئی جی سندھ سے ایس ایس پی شکار پور کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں، ''معاملہ دونوں جانب سے بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ سندھ حکومت ہر معاملے میں اپنی شمولیت کی خواہش مند ہے تاہم اس کے اقدامات سے پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں ہورہی۔ 2000 سے زائد ریٹائرڈ فوجیوں کی پولیس میں شمولیت پر اے ڈی خواجہ کو بھی اعتراض تھا اور کلیم امام کو بھی ہے لیکن کلیم امام بھی بہت آگے بڑھ گئے ہیں۔ آئی جی کو قانون کے مطابق صوبائی حکومت کے ماتحت کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔