1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سماجی انضمام کے لیے مزید سرمایہ کاری کی جانی چاہیے، شوئبلے 

23 ستمبر 2018

جرمن پارلیمان کے صدر وولف گانگ شوئبلے کے مطابق ’جرمنی سے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنا غیر حقیقی عمل ہو گا، لہٰذا پناہ گزینوں کو جرمن معاشرے میں ضم کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کی جانی چاہیے۔‘

https://p.dw.com/p/35MYi
Bundestag Haushaltsdebatte 2019 Schäuble
تصویر: Reuters/H. Hanschke

جرمن پارلیمان کے صدر وولف گانگ شوئبلے نے پناہ گزینوں کی جرمنی سے ملک بدری کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم پر یہ امر واضح ہونا چاہیے کہ انفرادی سطح پر کسی بھی پناہ گزین کو ملک بدر کرنا کتنا مشکل عمل ہے۔‘‘ جرمن اخبار ’ویلٹ آم زونٹاگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے شوئبلے نے مزید کہا، ’’اسی بناء پر ہمیں یہ امید نہیں لگانی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ لوگوں کو واپس بھیج سکیں گے‘‘۔ ان کے بقول پناہ گزینوں کی بڑی تعداد کو ملک بدر کرنے کے بجائے انہیں معاشرے میں ضم کیے جانے پر توجہ دینی چاہیے۔
مہاجرین کے حوالے سے پالیسیاں نہ صرف موجودہ جرمن حکومت کی اتحادی جماعتوں کے درمیان تنازعے کی ایک وجہ ہیں بلکہ یورپی یونین کی سطح پر بھی اکثر تناؤ کی وجہ یہی موضوع ہوتا ہے۔

جرمن انٹیلیجنس سربراہ ہانس گیورگ ماسن کو ہٹا دیا گیا

جرمن سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے یورپی کمشنر گُنٹر اوٹنگر نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی جماعتیں آپس میں الجھنے کے بجائے یورپی سطح پر اتفاق رائے کے لیے بھرپور کوششیں کریں، ’’برسلز میں اپنے یورپی ساتھیوں کو یہ سمجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے کہ جرمنی کی ’وسیع تر مخلوط حکومت‘ کیوں اکثر تنازعات کا شکار رہتی ہے، خاص طور پر ایسے معاملات پر جو اتنے اہم بھی نہیں ہوتے۔‘‘ اوٹنگر نے ان خیالات کا اظہار جرمنی کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ ہانس گیورگ ماسن کے موضوع پر جاری بحث کے تناظر میں کیا۔

’مشرقی یا مغربی جرمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔‘

جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں انتہائی دائیں بازو کے حلقوں کی جانب سے غیر ملکیوں اور پناہ گزینوں کے خلاف جذبات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ وفاقی پارلیمان کے صدر نے جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل  اور کیمنٹس میں تناؤ کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ’جرمنی کے مشرقی یا مغربی حصے کا مسئلہ نہیں ہے۔‘ ان کے مطابق ’’اس طرح کی سوچ کو پروان چڑھانے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق مغربی جرمنی سے ہے۔‘‘

اسلام مخالف اے ایف ڈی دوسری سب سے بڑی جماعت، جائزہ رپورٹ

اسی کے ساتھ شوئبلے نے جرمن ریاست رائن لینڈ پلاٹنیٹ کے شہر کانڈل میں ایک افغان تارک وطن کے ہاتھوں قتل ہونے والی جرمن لڑکی ’میاوی‘ کے واقع کا ذکر کیا۔ کانڈل میں اس واقع کے بعد گزشتہ برس دسمبر سے دائیں بازو کی جانب سے مہاجرین مخالف مظاہروں میں اضافہ دیکھا جا رہا تھا۔ شوئبلے کے مطابق ’کوئتھن  اورکانڈل میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘

ع آ/ ع ا (نیوز ایجنسیاں)

اہلیانِ کیمنٹس کی جانب سے نسل پرست مظاہرین کی مذمت