1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سلمان تاثیرکی تیسری برسی، پاکستانی بدستور منتقسم

4 جنوری 2014

پاکستانی صوبے پنجاب کے سابق گورنر اور لبرل سیاستدان سلمان تاثیر کے قتل کو تین برس مکمل ہو گئے ہیں، تاہم پاکستانی عوام آج بھی اس بات پر دو مختلف آراء رکھتے ہیں کہ آیا توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی جانا چاہیے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/1Al8H
تصویر: AP

سلمان تاثیر کی برسی کے موقع پر پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی متعدد تنظیمیں یادگاری تقریبات کا آغاز کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں لاہور میں لبرٹی مارکیٹ پر موم بتیاں روشن کی جائیں گی۔ پاکستانی میں لبرل طبقے سلمان تاثیر کے قتل کو ایک سانحہ قرار دیتے ہیں، تاہم ملک میں موجود مذہبی طبقہ اس قتل کو جائز قرار دیتا نظر آتا ہے۔

سلمان تاثیر کو چار جنوری 2011ء کو ان کے اپنے محافظ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ ممتاز قادری نامی اس محافظ کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور بعد میں اسے انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے سزائے موت سنا دی تھی، تاہم اس پر ابھی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔

اس قاتل کا مؤقف تھا کہ اس نے سلمان تاثیر کو ملک میں رائج توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کے خلاف آواز اٹھانے پر ہلاک کیا۔ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے جرم میں سزا پانے والی ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس قانون میں تبدیلی کے لیے کوشش کریں گے۔ سلمان تاثیر کا مؤقف تھا کہ لوگ اس قانون کو ذاتی عناد اور دشمنیوں کے تناظر میں استعمال کرتے ہیں اور اس سے سب سے زیادہ متاثر غیرمسلم پاکستانی شہری ہوتے ہیں۔

Blasphemie Gesetz in Pakistan FLASH Galerie
سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے جرم میں سزا پانے والے ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی مدد کرنے کا اعلان کیا تھاتصویر: AP

اس واقعے کے بعد ملک میں اس قانون اور اس کے غلط استعمال کے حوالے سے میڈیا پر پہلی مرتبہ کھل کر بحث ہونے لگی تھی۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اس قانون میں کسی تبدیلی کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی جیسی جماعت سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اس قانون میں ترمیم سے متعلق عوامی رائے عامہ کو ہموار کرے، تاہم ملک میں موجود مضبوط مذہبی جماعتوں اور عوامی سطح پر اس قانون کے حوالے سے پائے جانے والے جذبات نے حکومت کو ایسا کوئی اقدام کرنے نہیں دیا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے واقعے کے بعد بھی متعدد مواقع پر ملکی سطح پر اس قانون میں کسی تبدیلی یا ترمیم سے متعلق بحث کا آغاز ہوا، تاہم نتیجہ کچھ نہ نکلا۔

سن 2012ء میں دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں ایک انتہائی غریب علاقے میں ایک مسیحی بچی، رمشا مسیح پر قرآن کی توہین کے الزامات سامنے آنے کے موقع پر بھی پاکستانی میڈیا میں اس موضوع پر بات کی جاتی رہی، تاہم سرکاری سطح پر اس معاملے میں تبدیلی کے حوالے سے کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ خیال رہے کہ رمشا مسیح کو عدالت نے باعزت بری کر دیا تھا اور اس پر الزام عائد کرنے والے مقامی مسجد کے مولوی کے خلاف جھوٹے شواہد پیدا کرنے کے الزام کے تحت مقدمے کا آغاز کیا گیا تھا، تاہم گزشتہ برس اگست میں اسے بھی رہا کر دیا گیا۔