1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی شہزادے کی میزبانی کرنے پر فرانس کے صدر تنقید کی زد میں

29 جولائی 2022

فرانسیسی صدر سے توقع کی جا رہی تھی کہ محمد بن سلمان کے ساتھ اپنی ملاقات میں انسانی حقوق کا مسئلہ بھی اٹھائیں گے، تاہم سعودی عرب کے عملاً حکمراں کے ساتھ پیرس میں ہونے والی بات چیت میں توانائی کی فراہمی ہی اہم ایجنڈا تھا۔

https://p.dw.com/p/4Eocq
Kronprinz von Saudi-Arabien in Frankreich
تصویر: Lewis Joly/AP Photo/picture alliance

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں دارالحکومت پیرس میں جمعرات کی شام کو سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ایک ورکنگ ڈنر کی میزبانی کر رہے تھے۔ تاہم ملک کے بعض سیاست دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کے اس رویے پر شدید تنقید کی ہے۔

 سعودی ولی عہد گزشتہ منگل سے یورپ میں ہیں، وہ سن 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سے یورپ کے اپنے پہلے سرکاری دورے پر پہلے یونان اور پھر فرانس پہنچے۔

اس قتل کی وجہ سے تقریباً چار برس تک بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ پڑنے کے بعد ان کے اس دورے کو محمد بن سلمان کی عالمی امور میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ سمیت بعض تفتیش کاروں کا الزام ہے کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم خود محمد بن سلمان نے ہی دیا تھا۔

لیکن ان کا یہ دورہ یورپ ایک ایسے وقت میں ہوا جب یوکرین میں جنگ اور ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے کے سبب، مغربی ممالک تیل پیدا کرنے والی بڑی ریاست سعودی عرب کے ساتھ دوبارہ تعلقات  بہتر کرنے کی کوشش میں ہیں۔

 فرانسیسی وزیر اعظم الزبتھ بورن کا کہنا تھا کہ صدر ماکروں سعودی شہزادے کے ساتھ ملاقات کے دوران انسانی حقوق پر اپنے تحفظات پر بات چیت کریں گے اور روس کے علاوہ کہیں دوسری جگہ سے توانائی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کی بھی کوشش کریں گے۔

بورن نے کہا، ''ظاہر ہے، یہ اپنے اصولوں کو پس پشت ڈالنے کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ انسانی حقوق سے متعلق ہماری وابستگی پر سوالیہ نشان لگانے کے بارے میں بھی نہیں ہے۔ یقینی طور پر صدر کو محمد بن سلمان کے ساتھ اس بارے میں بات کرنے کا موقع ملے گا۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''اس سیاق و سباق میں، جہاں ہمیں معلوم ہے کہ روس کٹوتیاں کر رہا ہے، کٹوتی کرنے کی دھمکی دے رہا ہے اور گیس کی سپلائی میں پھر کمی کر رہا ہے، اور جہاں ہم توانائی کی قیمتوں پر تناؤ کا شکار ہیں، میرے خیال میں اگر ہم توانائی پیدا کرنے والے ممالک سے بات نہیں کرتے، تو فرانس کی عوام اسے سمجھ نہیں پائیں گے۔''

Kronprinz von Saudi-Arabien in Frankreich
تصویر: Lewis Joly/AP Photo/picture alliance

میزبانی کرنے پر ماکروں تنقید کی زد میں

 جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجہ چنگیزی نے ماکروں کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ''میں بہت غصے میں ہوں کہ ایمانوئل ماکروں میرے منگیتر جمال خاشقجی کے قاتل کا تمام اعزازات کے ساتھ خیر مقدم کر رہے ہیں۔''

انہوں نے مزید کہا، ''یوکرین میں جنگ کی وجہ سے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اس بات کا قطی جواز پیش نہیں کر سکتا کہ ''حقیقی سیاست کے نام پر، ہم سعودی عرب میں سیاسی مخالفین کے ساتھ پالیسیوں کے لیے ذمہ دار شخص کو بری کر دیں۔''

واشنگٹن میں سرگرم انسانی حقوق کے ادارے 'ڈیموکریسی فار دی عرب ورلڈ ناؤ' (ڈی اے ڈبلیو این) نے فرانس میں سعودی رہنما محمد بن سلمان کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

ادارے کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ لیہ وٹسن نے کہا، ''تشدد اور جبری گمشدگیوں کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشنز کے ایک فریق کے طور پر، فرانس اس بات کا پابند ہے کہ اگر محمد بن سلمان جیسے مشتبہ افراد فرانس کی سرزمین پر موجود ہوں،  تو ان سے تفتیش کی جائے۔''

سوئٹزرلینڈ میں قائم انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم 'ٹرائل انٹرنیشنل' نے اس سلسلے میں جمعرات کے روز ہی ایک اور شکایت درج کرائی۔

اس دوران فرانس کے بعض سیاستدانوں نے بھی ماکروں کی میزبانی پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ ماحولیاتی امور کے لیے سرگرم سیاست دان یانیک جاڈویٹ، جنہوں نے اس برس کے صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لیا تھا، اپنی ٹویٹ میں کہا: ''کیا صحافی خاشقجی کی کٹی ہوئی لاش بھی ماکروں اور محمد بن سلمان کے درمیان شام کے کھانے کے مینو میں شامل ہے؟''

سعودی ولی عہد کا دورہ یورپ امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے بعد ہوا۔ بائیڈن نے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے سعودی شاہی خاندان کو سائیڈ لائن کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود جس انداز سے انہوں نے جدہ میں محمد بن سلمان سے پرتپاک انداز میں ملاقات کی اس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل اگنیس کالمارڈ نے ٹویٹر پر لکھا کہ ''حقیقی سیاست کے دلائل کے ساتھ فرانس میں بھی قاتل شہزادے کے خیرمقدم کو اسی انداز میں جائز ٹھہرایا جائے گا جیسا کہ امریکہ میں ہوا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ ایک سودے بازی ہے۔ آئیے اس کا سامنا کریں۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

خاشقجی کے بارے میں سوال پر شہزادہ سلمان کی خاموشی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید