1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی برقرار رہے گی

17 جنوری 2019

جرمن حکومت کے ایک فیصلے کے مطابق قدامت پسند خلیجی بادشاہت سعودی عرب کو جرمنی کی طرف سے ہتھیاروں کی فراہمی پر آئندہ بھی پابندی رہے گی۔ یہ پابندی سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں ہولناک قتل کے بعد لگائی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/3BhmY
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، دائیں، اور مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی

برلن حکومت کی طرف سے سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں اور عسکری ساز و سامان کی فروخت اور ترسیل پر یہ پابندی گزشتہ برس دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول کے سعودی قونصل خانے میں ریاض حکومت کے ناقد سعودی صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے اس قتل کے بعد عائد کی گئی تھی، جس کی دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی تھی۔

Griechenland Rede Angela Merkel Besuch deutsche Schule in Athen
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: Reuters/C. Baltas

شروع میں جرمنی نے سعودی عرب کو جرمن ساختہ اسلحہ جات کی ترسیل پر یہ پابندی دو ماہ کے لیے لگائی تھی، جس میں اب وفاقی جرمن حکومت نے اپنے ایک فیصلے کے تحت مزید توسیع کر دی ہے۔

اس بارے میں برلن میں جرمن وزارت اقتصادیات کی ایک خاتون ترجمان نے بتایا کہ جرمنی آئندہ بھی ملکی اسلحہ ساز اداروں کو ریاض کو کسی بھی قسم کے ہتھیاروں کی فروخت یا ترسیل کی اجازت نہیں دے گا۔ ساتھ ہی ترجمان نے یہ بھی کہا کہ فی الحال یہ واضح نہیں کہ ریاض کے خلاف جرمنی کی یہ پابندی کب تک جاری رہے گی۔

برلن میں وفاقی وزارت اقتصادیات کے اس بیان سے قبل جرمنی میں آر این ڈی نامی ایک میڈیا ادارے نے چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کے قریبی ذارئع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ برلن میں ایک سے زائد متعلقہ وفاقی وزارتوں نے ہتھیار سازی کی جرمن صنعت کے ساتھ اتفاق رائے سے یہ طے کر لیا ہے کہ سعودی عرب کو فی الحال اس سال مارچ کے آغاز تک کوئی ہتھیار مہیا نہیں کیے جائیں گے۔

چانسلر میرکل کا فیصلہ کن موقف

اس سلسلے میں جرمن حکومت کے لیے ابھی تک فیصلہ کن بات وفاقی چانسلر کا جمال خاشقجی کے قتل کے قریب ایک ماہ بعد گزشتہ برس نومبر میں دیا جانے والا یہ بیان ہے، جس میں انگیلا میرکل  نے واضح طور پر کہہ دیا تھا، ’’جب تک استنبول کے سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ حل نہیں ہوتا، تب تک ریاض کو جرمنی کی طرف سے کوئی ہتھیار فراہم نہیں کیے جائیں گے۔‘‘

سعودی عرب نے بعد ازاں یہ اعتراف کر لیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی اہلکاروں نے ہی قتل کیا تھا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مطابق خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی عرب میں ’اعلیٰ ترین سطح‘ پر دیا گیا تھا۔ اس سے مراد اکثر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان لیے جاتے ہیں جبکہ ریاض حکومت ایسے دعووں کی بھرہور تردید کرتی ہے۔

اس فیصلے سے قبل یمن کی جنگ اور اس کی تباہ کاریوں کے باعث بھی برلن حکومت اور جرمنی کی اسلحہ ساز صنعت نے مل کر یہ فیصلہ بھی کر لیا تھا کہ یمن کی جنگ میں شریک خلیجی عرب ریاستوں کو شروع میں کم از کم دو ماہ تک کوئی اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا۔

ابتدائی مدت میں توسیع

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق سعودی عرب کو جرمن ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد گزشتہ پابندی کی مدت اس ماہ کے اوائل میں ختم ہو گئی تھی۔ اسی لیے چانسلر میرکل کی حکومت نے اس پابندی کی مدت میں مزید دو ماہ کی توسیع کرتے ہوئے ہتھیاروں کے بڑے جرمن برآمد کنندگان سے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ سعودی عرب کو کوئی ہتھیار مہیا نہ کریں۔ اس پابندی کا اطلاق ان ہتھیاروں کی ترسیل پر بھی ہو گا، جن کی فروخت کے دوطرفہ معاہدے اکتوبر 2018ء میں جمال خاشقجی کے قتل سے پہلے ہی طے پا چکے تھے۔

ہتھیاروں کی جرمن برآمدات میں واضح کمی

گزشتہ برس جرمنی سے بیرونی دنیا کے لیے اسلحے کی برآمدات میں واضح کمی دیکھنے میں آئی، جو 2017ء کے مقابلے میں قریب ایک چوتھائی کم تھی۔ وفاقی جرمن پارلیمان میں ماحول پسندوں کی گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن امید نوری پور کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزارت اقتصادیات کی طرف سے پارلیمانی ایوان زیریں کو بتایا گیا کہ پچھلے سال جرمن ہتھیاروں کی برآمدات میں 22.7 فیصد کی کمی ہوئی۔

جرمنی میں اسلحہ سازی کی ملکی صنعت اپنی عسکری مصنوعات وفاقی حکومت کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد ہی برآمد کر سکتی ہے۔ یوں جرمن حکومت نے پچھلے سال کافی زیادہ کمی کے بعد جو اجازت نامے جاری کیے، ان کے تحت 2018ء میں کُل تقریباﹰ 4.83 ارب یورو کے ہتھیار برآمد کیے گئے۔ اس سے ایک سال قبل 2017ء میں ایسی برآمدات کی سالانہ مالیت قریب 6.23 ارب یورو رہی تھی۔

م م / ع ا / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں