1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی عرب کو بھی منی لانڈرنگ بلیک لسٹ میں شامل کیا جائے

14 فروری 2019

یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ سعودی عرب سمیت دیگر سات ممالک کو بھی منی لانڈرنگ کے حوالے سے بنائی گئی بلیک لسٹ میں شامل کر لینا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/3DMK0
Saudi-Arabische Banknoten
تصویر: Fotolia/eugenesergeev

یورپی کمیشن نے زور دیا ہے کہ یورپی یونین کی منی لانڈرنگ بلیک لسٹ کی فہرست میں مزید سات ممالک کو شامل کرنا چاہیے۔ تجویز دی گئی ہے کہ سعودی عرب، پاناما اور نائجیریا کو بھی اس فہرست میں شامل کر دینا چاہیے۔ تاہم اس حوالے سے حتمی منظوری کی خاطر یورپی پارلیمان اور رکن ریاستوں کی حمایت لازمی ہو گی۔

فی الحال اس فہرست میں شامل ممالک کی تعداد سولہ ہے اور اگر یورپی کمیشن کی یہ تجویز منظور کر لی گئی تو اس فہرست میں شامل ممالک کی تعداد تئیس ہو جائے گی۔ اس فہرست میں شامل ممالک کی حکومتوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی مالی معاونت اور دیگر منظم جرائم کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے۔

یورپی کمیشن کی کمشنر برائے انصاف یارا یورووَا نے یونین کے رکن اٹھائیس ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بینکنگ سیکٹر کے خطرات ’جنگلی آگ کی طرح پھیل‘ سکتے ہیں۔ ان کا اشارہ جرائم پیشہ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے منظم گروہوں کی طرف تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یورپ بزنس کے لیے کھلا ہے لیکن وہ خطرات سے بے خبر بھی نہیں۔

اس فہرست میں شامل ممالک کو یورپی یونین کی پابندیوں کا سامنا نہیں ہوتا بلکہ اس کی بدولت یورپی بینک ان ممالک سے ہونے والی مالی ادائیگیوں کی انتہائی باریک بینی سے چھان بین کرتی رہتی ہیں۔ اس پیشرفت پر سعودی وزیر خزانہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاض حکومت ریگولیٹری اور قانونی فریم ورک کو بہتر بنانے کی خاطر کام کر رہی ہے۔

دوسری طرف برطانیہ نے اس تجویز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی یونین کی بلیک لسٹ ’بزنس میں الجھنوں‘ کا باعث بنے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ لندن حکومت نے اپنے طور پر ایسا ہی ایک نظام بنایا ہوا ہے، جہاں منی لانڈرنگ پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔

ادھر پاناما نے کہا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ کے خلاف سخت اقدامات لیے ہیں۔ یاد رہے کہ سن دو ہزار سولہ میں پاناما اسکینڈل کے باعث اس ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا تھا۔ اسی تناظر میں امریکی وزارت مالیات نے کہا ہے کہ جس طریقہ کار کے تحت یورپی یونین نے اس بلیک لسٹ کو تیار کیا ہے، اس پر واشنگٹن حکومت کو تحفظات ہیں اور اس عمل میں شفافیت پر بھی سوالیہ نشانات لگائے جا سکتے ہیں۔

ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید